021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہر کے فوت ہوجانے کے بعد بیوہ کو ملنے والی پنشن کی شرعی حیثیت
77181میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میرے والد سعید احمد سمیت میری دادی کی اولاد میں ان کے صرف چار بیٹے تھے، سب سے بڑے بیٹے رشید احمد ،میرے والد سعید احمد، پھر عزیز احمد اور آخر میں نثار احمد تھے، ان میں صرف میرے تایا رشید احمد اور میرے والد مرحوم کے اولاد ہیں، جبکہ میرے چچا عزیز احمد اور نثار احمد کی کوئی اولاد نہیں ہے، سب سے پہلے نثار احمد کا انتقال 2003 میں ہوا تھا پھر میرے تایا رشید احمد 2019 میں انتقال کر گئے، اس کے بعد ابھی حال ہی میں چچا عزیز احمد اور میرے والد صاحب انتقال کرگئے، میرے دونوں چچاؤں کی وراثت کا معاملہ تا حال حل پذیر ہے،دونوں کی بیوائیں آج بھی حیات ہیں، نثار احمد کی بیوہ کے بقول ان کو جو مراعات ان کے شوہر کے انتقال کے فورا بعد ملیں اس رقم کا کچھ حصہ جو کہ تقریبا 75000 روپے بنتے ہیں، وہ تینوں بھائیوں کو یکساں طور پر دیدیا گیا تھا جس کی تفصیلات خود ان  کےپاس ہیں، لہذا یہ واضح نہیں ان کو کتنی رقم ملی تھی اور انہوں نے کس طرح حصے مقرر کئے ہیں، لہذا اب جب تمام  بھائیوں کا انتقال ہوچکا  ہے، لیکن کچھ رقم جو ابھی انہیں وقتا فوقتا بینوولنٹ، فنڈپنشن اور دیگر صورتوں میں موصول ہورہی ہے وہ انہی کے استعمال میں ہے، لہذا اب اس کا شرعی حکم کیا ہوگا؟

دوسرا مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے کہ جیسا کہ میں نے اوپر یہ بتایا ہے کہ والد صاحب کا انتقال 15 جنوری 2019 کو ہوا جبکہ میرے چچا عزیز احمد کا انتقال میرے والد سے 11 دن قبل 4 جنوری 2022 کو ہوا، دونوں کی بیوائیں بھی حیات ہیں، لہذا عزیز احمد کی وراثت کے شرعی مستحقین اور ترکے میں ان کا حصہ واضح فرمادیں اور اس کے ساتھ اس بات کی بھی وضاحت فرمادیں کہ جو چیزیں عزیز احمد کی بیوہ اور خود ان کے شوہر کے مشترکہ طور پر خریدی گئی ہوں ان پر کیا شرعی احکامات لاگو ہوتے ہیں،  اور اگر ان کے کسی لے پالک کا ترکے میں کوئی حصہ ہو تو وہ بھی واضح فرمادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔ نثار احمد کے فوت ہونے کے بعد حکومت کی طرف سے ان کی بیوہ کو جو پنشن مل رہی ہے، اس کا شمار میت کے ترکہ میں نہیں ہوتا بلکہ شرعا اس کی حیثیت سرکار کی طرف سے محض تبرع واحسان کی ہے؛ لہذا قانونا یہ پنشن جس کے نام آتی ہو وہی اس کا مالک ہے، دوسرے لوگ شرعا وقانونا اس کے حقدار نہیں ہیں، اس لئے نثار احمد کے وفات کے بعد وقتا فوقتا مختلف صورتوں میں ملنے والی  پنشن رقم تن تنہا ان کی بیوہ کی ملکیت ہے،دیگر ورثاء کا اس میں حصہ نہیں ہے۔  

2۔ عزیز احمد کے وفات کے بعد ان کے ترکہ میں مستحق افراد ان کی بیوہ اور ان کے بھائی سعید احمدہیں، لہذاصورت مسؤلہ میں مرحوم نے بوقت انتقال اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ مال وجائیداد،مکان، جانور، دکان،نقد رقم،سونا چاندی،زیورات غرض ہر قسم کا چھوٹا بڑا گھریلوسازوسامان چھوڑا ہے وہ سب مرحوم کا ترکہ ہے۔ اس میں سے سب سے پہلے مرحوم کے کفن دفن کے مسنون اخراجات ادا کیے جائیں، اگر یہ اخراجات کسی نے احسان کے طور پر ادا کردیے ہوں،تو ان کے ترکے سے یہ اخراجات نہیں نکالے جائیں گے۔ پھر اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو وہ ان کے ترکے سے ادا کریں۔ اس کے بعد دیکھیں کہ اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کسی غیر وارث کے حق میں کی ہو تو بقیہ ترکہ میں سے ایک تہائی کی حد تک اس پر عمل کریں، اس کے بعد مرحوم کے کل ترکہ منقولی وغیر منقولی کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے، جس میں سے تین حصے ان کے بھائی کو اور ایک حصہ ان کی بیوہ کو دیا جائے۔

فیصدی اعتبار سے تقسیم یوں ہوگی کہ بھائی کو 75%فیصد اور بیوہ کو25% فیصد دیا جائے۔

باقی جو سامان میاں بیوی دونوں نے ملکر خریداتھا، چنانچہ اگر سامان کی خریداری کے وقت بیوی نے  بطور قرض ان کو یہ پیسے دیئے تھے تو وہ میاں مرحوم کے ترکہ میں سے سب سے پہلے اپنا قرض وصول کرسکتی ہے اور اگر ہدیہ کے طور پر دیئے تھے تو اس صورت میں یہ پیسے شوہر کی ملکیت تصور ہوں گی اور بیوی کو یہ پیسے واپس لینے کا اختیار نہیں ،تیسری صورت جو عام اور معروف ہے کہ بیوی نے شوہر کو پیسے دیتے وقت کوئی حیثیت متعین نہ کی ہو تو ایسے میں عرف کی وجہ سے  گھر کا سامان میاں بیوی دونوں کے درمیان مشترک ہوگا،اور یہ سامان ہر ایک کے لگائے گئے پیسوں کے تناسب سے تقسیم ہوگا، سامان میں سے بیوی کا حصہ نکالنے کے بعدباقی جو بچے وہ تمام ورثہ کے درمیان(بیوہ سمیت) ان کے ذکر کردہ حصص کے تناسب سے تقسیم ہوگا۔

لے پالک بیٹے کا ترکہ میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 759)
 لأن الترکۃ ما تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال كما في شروح السراجية.

محمدنصیر

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

١٨ذی القعده ١٤٤٣ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نصیر ولد عبد الرؤوف

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب