021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میقات سے تجاوزکرکے جدہ سے احرام باندھنے کی صورت میں دم کاحکم
77210حج کے احکام ومسائلحج کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

 کسی بھی میقات سے تجاوز کرنے والا جدہ جاکر احرام باندھ کر عمرہ ادا کرے تو کیا دم ساقط ہو جائے گا ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میقات سے بغیر احرام گزرنےسے جو دم واجب ہوتاہے وہ افعال حج میں شروع ہونے سے پہلے کسی بھی وقت میقات پر لوٹ کر احرام باندھنےسے ساقط ہوجاتاہے ،اب سوال یہ ہے کہ آیا قرن المنازل پر جہازگرزنے کے بعدجب حاجی نے جدہ سے احرام باندھاتو اس سے بھی چونکہ عود الی محاذاتِ المیقات علی قول البعض  تو ہوگیالہذا اس  قول کے مطابق دم ساقط ہوناچاہیے، دارالعلوم کراچی کا سابقہ فتوی بھی یہی تھا ،چنانچہ حضرت اقدس مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے فتاوی عثمانی میں لکھاہے :

’’لہذا صحیح یہ معلوم ہوتاہے کہ ہوائی جہازسے جانے والااگرقرن المنازل سے بغیراحرام گزرگیااورپھر جدہ پہنچ کراحرام باندھاتومجاوزت میقات سے بغیر احرام گزرنے کا گناہ تو اسے ضرورہوگا،لیکن دم واجب نہیں ہوگا،کیونکہ وہ دوسرے میقات کی طرف نکل گیاہے ،اوروہاں سے احرام باندھ رہاہے ،ھذا ماظہر لی واللہ اعلم۔‘‘ (فتاوی عثمانی ۲/۲١۰)

تاہم پھر اس پر نئی تحقیق ہوئی اوراب دارلعلوم کراچی کی  بھی  یہ ر ائےبنی   ہے کہ دم ساقط نہیں ہوگا،اورجواہر الفقہ میں جو وجوب دم کی بات لکھی گئی وہ درست ہے ، اس لئے کہ دم میقات کی طرف عود کرنے سے ساقط ہوتاہے، محاذات ِمیقات  کی طرف واپس جانے اوراحرام باندھنے سےساقط نہیں ہوتا۔حاصل کلام یہ ہے کہ جدہ سے احرام باندھنے کی صورت میں دم ساقط نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
فی غنیۃ الناسک(53):
تنبیہ: فلومربمیقات ومحاذاۃ الثانی لاتعتبرالمحاذاۃ (ضیاء الأبصار) ولعل وجہہ أن المحاذاۃ لم تعتبرمیقاتابالنص ، انما ألحقت بالمیقات اجتہادا بالقیاس علیہ  فی حرمۃ مجاوزتہ بلا إحرام بعلۃ تعظیم الحرم المحترم، فکذا فی جواز الإحرام عنہ أیضادفعاللحرج مع أن إحرامہ من عین المیقات أولی ،ولم تلحق بہ فی جوازترک المیقات إلیہ ،لأنہ حکم ثبت للمیقات بالنص علی خلاف القیاس ،فغیرہ علیہ لایقاس۔ واللہ سبحانہ وتعالی أعلم۔
تنبیہ: فلوکان یمربواحدمنہاعینافلاتعتبرالمحاذاۃ بعدہ کمافصلہ فی رد المحتار.
وفی  الشامیۃ :(274/2)
(قولہ ولو لم یمر بہا إلخ) کذا فی الفتح.ومفادہ أن وجوب الإحرام بالمحاذاۃ إنما یعتبر عند عدم المرور علی المواقیت أما لو مر علیہا فلا یجوز لہ مجاوزۃ آخر ما یمر علیہ منہا وإن کان یحاذی بعدہ میقاتا آخر وبذلک أجاب صاحب البحر عما أوردہ علیہ العلامۃ ابن حجر الہیثمی الشافعی حین اجتماعہ بہ فی مکۃ من أنہ ینبغی علی مدعاکم أن لا یلزم الشامی والمصری الإحرام من رابغ، بل من خلیص لمحاذاتہ لآخر المواقیت، وہو قرن المنازل.
وأجابہ بجواب آخر وہو أن مرادہم المحاذاۃ القریبۃ، ومحاذاۃ المارین بقرن بعیدۃ لأن بینہم وبینہ بعض جبال، لکن نازعہ فی النہر بأنہ لا فرق بین القریبۃ والبعیدۃ.
وفی البحرالرائق🙁 342/2)
وقد قالوا: ومن کان فی برأ وبحر لا یمر بواحد من هذہ المواقیت المذکورۃ فعلیہ أن یحرم إذا حاذی آخرہا ویعرف بالاجتہاد وعلیہ أن یجتہد فإذا لم یکن بحیث یحاذی فعلی مرحلتین إلی مکۃ  ولعل مرادہم بالمحاذاۃ المحاذاۃ القریبۃ من المیقات وإلا فآخر المواقیت باعتبار المحاذاۃ قرن المنازل. ذکرلی بعض اھل العلم من الشافعیۃ المقیمین بمکۃ فی الحجۃ الرابعۃ للعبدالضعیف أن المحاذاۃ حاصلۃ فی هذا المیقات فینبغی علی مذہب  الحنفیۃ  أن لا یلزم الإحرام من رابغ بل من خلیص القریۃ المعروفۃ فإنہ حینئذ یکون محاذیا لآخر المواقیت وهو قرن فأجبتہ بجوابین: الأول أن احرام المصری والشامی لم یکن بالمحاذاۃ وإنما هو بالمرور علی الجحفۃ وإن لم تکن معروفۃ فإحرامہم قبلہا احتیاطا والمحاذاۃ إنما تعتبر عند عدم المرور علی المواقیت . الثانی أن مرادہم المحاذاۃ القریبۃ ومحاذاۃ المارین لقرن بعیدۃ ،لأن بینہم وبینہ بعض جبال واللہ أعلم بحقیقۃ الحال.
فی النھر الفائق( بعدنقل  عبارۃ البحر)
وأقول: فی الثانی ما لا یخفی لأن من لا یمر علی المواقیت یحرم إذا حاذی آخرها  قربت المحاذاۃ  أو بعدت والحاصل أن الآفاقی إذا قصد دخول مکۃ وجب علیہ الإحرام من آخر المواقیت سواء أراد الحج أو العمرۃ أو القتال أو التجارۃ أو غیر ذلک.

محمد اویس بن عبدالکریم

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

20/ذی قعدہ1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب