021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
آفاقی عمرہ کے بعد مدینہ سے حج قران کی نیت کرسکتاہے؟
77211حج کے احکام ومسائلحج کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیا آفاقی شخص کا اشہر  حج میں عمرہ ادا کرنے کے بعد مدینہ جانا اور واپسی پر قران کرنا درست ہوگا یا نہیں ؟ کیا حالت عذر میں ایسا کرنا درست ہے ؟
اس مسئلے میں مفتی بہ قول کونسا ہے ؟ اور کیا عذرکی وجہ سے صاحبین کے قول پر عمل کیا جا سکتا ہے ؟
اگر کوئی شخص صاحبین کے قول کے قول پر عمل کرلے تو اس کا قران درست ہوگا کہ نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک آفاقی شخص اشہر حج میں عمرہ کےافعال سے فارغ ہوکر مدینہ آجاتاہے تو واپسی میں وہ حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھ کر قران نہیں کرسکتا؛ کیوں کہ امام صاحب کے نزدیک آفاقی کاوطن اصلی کے علاوہ کسی دوسرے شہرکی طرف سفرکرنے سے حج تمتع باطل نہیں ہوتا،جبکہ امام ابویوسف اورامام محمدرحمہااللہ تعالی کے نزدیک باطل ہوجاتاہے،فتوی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے قول پرہے،اس لئے آفاقی جب مدینہ سے مکہ مکرمہ آئے توبہتریہ ہے کہ صرف حج کااحرام باندھے،تاہم اگرکسی نے حج قران کی نیت کرلی تو حج قران ہوجائے گا اورایک دم لازم ہے۔

حوالہ جات
فی غنیۃ الناسک(343،344، ط:جدید باکستان) :
وکذا لو خرج إلی الآفاق لحاجة فقرن لا یکون قارناً عند أبي حنیفة، وعلیہ رفض أحدھما ولا یبطل تمتعہ؛ لأن الأصل عندہ أن الخروج في أشھر الحج إلی غیر أھلہ کالإقامة بمکة فکأنہ لم یخرج وقرن من مکة ۔
وفی رد المحتار (ج 8 / ص 379)
( وحلق يوم النحر و ) إذا حلق ( حل من إحراميه ) على الظاهر ( والمكي ومن في حكمه يفرد فقط ) ولو قرن أو تمتع جاز وأساء ، وعليه دم جبر ، ولا يجزئه الصوم لو معسرا۔

محمد اویس بن عبدالکریم

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

20/ذی قعدہ 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب