021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چند سال کام کرنے کی وجہ سے جائیداد میں شرکت کا دعویٰ
77261شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

بڑے بھائی ظاہر شاہ بخاری کا موقف:

میرا نام ظاہر شاہ بخاری ہے، بڑے بھائی کا نام عقبان شاہ بخاری (مرحوم)، اور چھوٹے بھائی کا نام منعم شاہ بخاری ہے۔ میرے بڑے بھائی سید عقبان شاہ بخاری فوج میں تھے، جب وہ چھٹی پر گاؤں گئے تو منعم شاہ بخاری اس وقت چوتھی جماعت میں تھا، میرے بڑے بھائی نے دیکھا کہ (1) وہ بکریاں چرا رہا ہے تو بڑے بھائی نے منعم شاہ کو اسکول میں داخل کروایا کہ تم نے پڑھنا ہے، پھر عقبان شاہ بخاری چھٹی ختم ہونے پر واپس نوکری پر چلے گئے۔ اس کے جب وہ دوبارہ چھٹی پر گاؤں گئے تو دیکھا کہ منعم شاہ بخاری دوبارہ بکریاں چرا رہا ہے اور اسکول نہیں جارہا، بلکہ چھوڑ دیا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ سب سے بڑا بھائی جو کہ سوتیلا تھا، انہوں نے کہا کہ اگر تم اسکول پڑھوگے تو بھیڑ بکریاں کون چَرائے گا ؟ پھر عقبان شاہ بخاری نے جیسے تیسے چوتھی جماعت کے پیپر دلوائے، اس طرح گاؤں میں منعم شاہ بخاری نے پانچویں اور چھٹی جماعت پاس کی۔ یہ جماعتیں پڑھنے کے دوران جب عقبان شاہ بخاری دوبارہ چھٹی پر گاؤں گئے تو دیکھا کہ منعم شاہ نے دوبارہ بھیڑ بکریاں چرانا شروع کردیا ہے۔ عقبان شاہ کو غصہ آیا، لیکن خاموش رہا۔

پھر عقبان شاہ نے فوج کی نوکری چھوڑ دی اور کراچی چلے گئے۔ کراچی میں وہ پرائیویٹ نوکری کرنے لگے، دو سال بعد مجھے پڑھنے کے لیے کراچی بلوایا۔ پھر عقبان شاہ نے میرے لیے جنرل سٹور کھولا، ہم دونوں سٹور بھی چلاتے تھے، ساتھ ساتھ عقبان شاہ نوکری کرتے تھے اور میں پڑھتا تھا۔

عقبان شاہ کو جب پتا چلا کہ سوتیلے بھائی نے منعم شاہ کو دوبارہ اسکول سے نکلوادیا ہے تو انہوں نے والد صاحب کو خط لکھا کہ اس کو ہمارے پاس پڑھنے کے لیے بھیج دیں۔ والد صاحب نے منعم شاہ کو کراچی بھیج دیا۔ اس وقت تک ہمارے کاروبار کو تقریبا 5 سال ہوچکے تھے۔ منعم شاہ 20 دسمبر 1970ء کو کراچی پہنچا۔ ہم نے منعم شاہ کو گورنمنٹ ہائی اسکول جٹ لائن مین ساتویں جماعت میں داخلہ دلوایا۔ وہاں سے میٹرک پاس کر کے گورنمنٹ کالج عائشہ باوانی میں فرسٹ ائیر میں داخلہ دلوایا۔ کالج سے بارہویں جماعت پاس کر کے میڈیکل کے لیے اپلائی کیا، میڈیکل میں داخلہ نہ ہوسکا، اس لیے بارہویں جماعت دوبارہ پڑھی، پھر منعم شاہ کو خیبر میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ یہ تقریبا کراچی میں ہمارے پاس ساڑھے چھ سال رہا۔ میڈیکل کا خرچہ، ہاسٹل کا خرچہ، اور جیب خرچ سارا ہم کراچی سے بھیجتے رہے، اس وقت ہم نے منعم شاہ کے لیے ساڑھے نو ہزار کی موٹر سائیکل بھی خریدی، اس طرح تقریبا پانچ سال تک ہم سارا خرچ بھیجتے رہیں، اس دوران جب میڈیکل یونیورسٹی سے چھٹیوں میں کراچی آتے تھے تو جتنا بھی خرچہ کرتے، جنرل اسٹور سے لیتے، اور کوئی بھی بھائی ان سے نہیں پوچھتا تھا کہ کتنے پیسے لیے ہیں ؟ منعم شاہ نے 1983ء میں میڈیکل مکمل کیا۔

اس کے علاوہ 1980ء میں ہم نے لاچی میں 30 مرلے کا پلاٹ خریدا، بڑے بھائی نے 10 مرلے منعم شاہ کے نام پر بھی لکھا، 2015 میں جب منعم شاہ نے وہ پلاٹ 50 لاکھ میں بیچا تو اس میں سے 15 لاکھ خود رکھ لیے، اور 35 لاکھ ہمیں کراچی بھیج دئیے، حالانکہ وہ پلاٹ عقبان شاہ اور میں نے خریدا تھا، منعم شاہ اس وقت کالج میں پڑھتا تھا جس سارا خرچ ہم اٹھاتے تھے۔

1981ء میں بڑے بھائی اور میں نے کھیتوں میں بورنگ شروع کی، اور گاؤں میں گھر بھی بنالیا۔ کنویں اور گھر بنانے میں جتنا پیسہ خرچ ہوا، وہ سب ہم نے کراچی سے بھیجا تھا، اس وقت منعم شاہ میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا اور کوئی نوکری نہیں کرتا تھا۔ میڈیکل کالج سے فارغ ہوکر اس نے کے پی میں سرکاری نوکری کی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے شروع سے ہی اسے پڑھنے کے لیے بلایا تھا، نہ کہ مزدوری کے لیے، اور اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ وہ آج ڈاکٹر ہے۔

ہمارے پیسوں کو کہتا ہے کہ مشترکہ ہیں، جبکہ اپنے پیسوں اور جائیداد کے بارے میں کہتا ہے کہ میں نے محنت کر کے حاصل کی ہے۔ اب کہتا ہے کہ 1983ء میں جب میڈیکل کالج پشاور سے فارغ ہوا تو آپ سے کوئی پیسے نہیں منگوائے۔ اس کے علاوہ شادی کے بعد جب کراچی آیا تو گاڑی خریدنے کے لیے 60 ہزار لایا، مگر گاڑی 80 ہزار کی تھی، ہم نے 20 ہزار ملا کر اس کو گاڑی دلوادی۔ 20 ہزار کا جنریٹر خرید کر اس کو گاؤں بھجوایا، اس کے علاوہ جب بھی کوئی چیز منگوائی ہم نے کراچی سے بھیجی۔

بڑے بھائی (عقبان شاہ) 3 فروری 2020 میں انتقال کر گئے ہیں، ان کے انتقال کے بعد منعم شاہ نے کراچی کی جائیداد میں حصے کا تقاضا شروع کردیا ہے کہ میں نے مزدوری کی ہے؛ لہٰذا میرا حصہ بنتا ہے۔ کراچی میں پڑھائی کے لیے یہ تقریبا ساڑھے چھ سال رہا۔ اسکول یا کالج سے فارغ ہو کر چند گھنٹے دکان داری کرنے کو یہ مزدوری کہتا ہے، حالانکہ میں اور میرے بڑے بھائی بھی جنرل اسٹور چلاتے تھے، منعم شاہ کا اصل کام تو پڑھنا تھا، فارغ وقت میں چند گھنٹے دکان داری کرنے کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ کراچی کی جائیداد میں حصے کا تقاضا کرے۔ جنرل اسٹور تو بڑے بھائی اور میں نے اس کے آنے سے پانچ سال پہلے شروع کیا تھا۔ اس نے تقریبا تیس، پینتیس سال نوکری اور کلینک کیا ہے، اور ہمیں ایک پیسہ بھی نہیں دیا۔ اب نوکری سے ریٹائر ہوچکا ہے، لیکن کلینک ابھی بھی چلاتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا شرعا کراچی کی جائیداد میں اس کا حصہ بنتا ہے ؟

چھوٹے بھائی ڈاکٹر منعم شاہ بخاری کا موقف:

میرا نام ڈاکڑ منعم شاہ بخاری ہے، میں نے بھائی ظاہر شاہ بخاری اور اہل بھائی عقبان شاہ مرحوم  کی طرف سے لکھی گئی تحریر پڑھ لی، اس تحریر میں جہاں جہاں تشریح ضروری ہے، نمبر وار لکھ رہا ہوں۔

۱۔  بھائی ظاہر شاہ کی تحریر میں لفظ بھیڑ بکریاں چرانا لکھا ہے، کیونکہ ہمارا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے ہے۔ اِس میں بھیڑ بکریاں چرانا،کھیتوں میں ہل چلانا، والدصاحب کے ساتھ مدد کرنا /اُس کے کام میں ہاتھ بٹانا سب بھائی کرتے رہتے تھے۔ صرف میں نے نہیں کی ہے۔

۲۔  بھائی عُقبان شاہ بخاری (مرحوم) سرکاری نوکری، ایکسائز میں نوکر تھے۔ دو سال بعد جب بھائی ظاہر شاہ بخاری کو کراچی پڑھنے کیلئے بلایا گیا کہ (اگر آپ کو بھی پڑھنے کیلئے بلایا گیا تھا)۔ اِس طرح تو پھر آپ کا بھی کاروبار/جائیداد میں حصہ نہیں بنتا۔

۳۔  میں کراچی آنے سے پہلے جائیداد (ایک دکان جو برائے نام تھی، مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے کہ دُکان میں سامان نہیں تھا، اور میں زوجہ دلاورخان سے تین سو روپے قرض لے کر پیدل صدر چلاگیا تھا، اور وہاں سے دُکان کے لئے سامان لایا تھا) اور اُس کے پیچھے گھر میں حصہ نہیں مانگتا۔ میں اُس جائیداد /پراپرٹی میں اپنے حصے کا طالب ہوں جو کہ کنٹورمنٹ کی زمین تھی اور ہم لوگوں نے مشترکہ قبضہ کر کے اس پر دُکانیں /مکانات بنائے تھے۔  

میں جب کراچی آیا، پہلے میں نے شام کے وقت اسکول جس میں 5بجے سے رات 9,8  بجے تک کلاسس ہوا کرتی تھیں، میں داخلہ لیا، پھر وہاں سے دوپہر والے اسکول جس میں ایک بجے سے شروع ہو کر پانچ بجے تک کلاسیں ہو ا کرتی تھی، سےمیٹرک پاس کیا۔

۴۔  مجھے آپ لوگ جو خرچہ میڈیکل کالج میں پڑھنے اور چھٹیوں میں دیتے تھے، یہ اُسی کاروبار / دکانوں کی آمدنی تھی  جو کہ میں چھوڑ کر گیا تھا، اور اُس جائیداد کی آمدنی سے آپ کے بچے پڑھتے تھے، کھاتے تھے، اور اُنکی شادیا ں بھی ہوئیں۔ جب آپ لوگ گاؤں آتے تھے، میں نے آپ لوگوں سے کبھی بجلی کا بل اور گھر کی مرمت کی رقم کا تقاضہ نہیں کیا۔وہ جائیداد میں جس حالت میں چھوڑ کر گیا تھا، آ پ لوگوں نے اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا، بلکہ آپ لوگوں نے ختم کر دیا، آپ لوگوں نے کیو ں جاری نہیں رکھا اگر آپ دُکان چلاتے اور میں کام نہیں کر تا تھا؟ صرف لیز ہونے کے بعد دُکانیں اور مکان لینڑ کروائے گئے، اور آمدن اِسی جائیداد سے حاصل کی گئی تھی۔

۵۔  وہ پلاٹ جو لاچی میں تھا۔ وہ پچاس لاکھ میں بیچ دیا گیا۔ اُس میں میرا حصہ جو کہ 16لاکھ 35ہزار تقریباً  بنتا ہے میں نے 15لاکھ لئے، اور آپ لوگوں کو 35لاکھ بھجوا دئیے۔ ایک پلاٹ جو کہ  KDA  کوہاٹ میں قرعہ اندازی میں میرے نام نکلا تھا۔ اُس کی ساری رقم 16لاکھ بھی آپ کو بھیج دی گئی۔ آپ لوگ کہتے ہیں کہ پلاٹ ہم نے خریدے تھے، اُن پلاٹس کی خریداری اُس مشترکہ کاروبار جو کہ میں چھوڑ کر گیا تھا، کی آمدن سے کی گئی تھی، ناکہ آپ لوگوں کی ذاتی کمائی سے۔

۶۔  گاؤں میں جس مکان اور ٹیوب ویل کی بات کرتے ہیں جو کہ اب بھی اپنی جگہ موجود ہیں، آ پ لوگ کہتے ہیں کہ رقم ہم کراچی سے بھیجتے تھے۔ اُس جائیداد، مکان /ٹیوب ویل بنانے کے دوران دیکھ بھال کرنا، اور سامان پورا کرنا کس کا کام تھا؟ دیکھ بھال کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ ابھی آپ نے گھر کی مرمت کی ہے، اپنا حال بتائیں۔ اور جنریٹر جو کہ ٹیوب ویل کیلئے بھیجا تھا، اُسی طرح موجود ہے، مکان بنانے میں میری ذاتی رقم بھی خرچ ہوئی ہے۔ لیکن میں نے کبھی اُس کا ذِکر نہیں کیا۔ کیونکہ آپ لوگ کہتے تھے، یہ سب کچھ مشترکہ ہے۔

۷۔  آپ لوگوں نے لکھا ہے کہ ہم نے آپ کو پڑھائی کیلئے بلایا تھا نہ کہ کام کرنے کیلئے، جب بھائی ظاہر شاہ بخاری صبح کالج جاتا تھا، اور بھائی عُقبان شاہ بخاری مرحوم صبح نوکری پر جاتا تھا، اور شام کو ٹیکسی چلاتا تھا تو پھر اُس دوران دُکان کون چلاتا تھا؟  دُکان کیلئے صد ر  ایمپر یس مارکیٹ /جوڑیاں بازار سے خریداری کو ن کرتا تھا؟ راشن کی رقم جمع کروانا اور چینی لانا کس کا کام تھا؟ یہ سب میں کرتا تھا۔ بھائی ظاہر شاہ بخاری تو کالج کے علاوہ کہیں بھی نہیں جاتے تھے۔ البتہ بھائی عُقبان شاہ بخاری مرحوم کبھی کبھی میری مدد کرتے تھے۔

۸۔  میں اگر ڈاکٹر بن گیا ہوں تو میں کاروبار کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی بڑی محنت سے کرتا تھا۔ چونکہ اِس علاقے میں بجلی نہیں تھی، میں رات کو مٹی کے تیل کا گیس جلا کر پڑھتا تھا، اور پھر رات کو دُکان کے اندر میز پر بستر ڈال کر سو تا تھا؛ کیونکہ صبح سویرے ڈبل روٹی والی گاڑی سے مال لیتا تھااور آپ لوگ گھر میں آرام سے چار پائی پر سوتے تھے، پھر آپ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کو کام کرنے کیلئے نہیں بلایا تھا، میں خود بھی کام کرتا تھا؛ کیونکہ میں چھوٹا تھا اور میں نے کبھی بھی اسکا بُرا نہیں مانا۔ جب پا نی کی قِلت ہوئی تھی تو میں کندھوں پر جناح ہسپتال سے پانی بھر کر لاتا تھا، لیکن میں نے کبھی شکایت نہیں؛ کی کیونکہ میں تو سمجھتا تھا کہ مشتر کہ جائیداد /کاروبار ہے، اور اِس کو بھا ئی عُقبان بخاری مرحوم، بھائی مورمان شاہ جو کہ گاؤں میں ہے، اور بھابھی کیشور، اور بھائی ظاہر شاہ بخاری کے سامنے تسلیم کر چکے تھے کہ ہاں جائیداد /کاروبار مشترکہ ہے، اور بھائی ظاہر شاہ بخاری بھی خود اِس تحریر کے لکھنے سے پہلے فون پر کہتے تھے کہ میرا کوئی اعتراض نہیں ہے،  جب میں اور بھائی مورمان شاہ کسی شادی کے سلسلے میں کراچی آئے تھے تومیں نے بھائی مورمان شاہ سے کہا کہ بھائی عُقبان شاہ بخاری مرحوم سے جائیداد کی تقسیم کی بات کریں تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے، کاغذات بنوالیں، لیکن چونکہ بھائی عُقبان شاہ بخاری مرحوم دِل اور شوگر کے مرض میں مبتلا تھے، اور وہ کہا کرتے تھے کہ الگ نہیں ہونا ہے۔ اُس کو اس سے صدمہ ہوگا، اس لئے میں نے جائیداد /کاروبار تقسیم کرنے کا مطالبہ/تقاضا مؤخر کیا۔ اب بھائی عُقبان شاہ  بخاری کے انتقال کے بعد میں  نے جائیدادتقسیم کرنے کا مطالبہ کیا تو آپ لوگ جائیداد میں حصہ دینے میں بہانے بنا رہے ہیں۔

۹۔  گاڑی کے 20ہزار روپے جب میں گاؤں آیا تو سونا بیچ کر واپس کر دئیے تھے۔

۱۰۔  میں نے اپنی شادی اپنے خرچے پے کی تھی، جب کہ میرے بھانجوں اور بھتیجیوں کی شادیاں اسی جائیداد کی کمائی سے ہوئی۔

آپ لوگ کہتے ہیں کہ آپ (ڈاکٹر منعم شاہ بخاری) کی کمائی جو کہ میں نے انفراد ی محنت کر کے  حاصل کی ہے، میں بھی آپ لوگوں کا حصہ بنتا ہے؟ میں اِس سلسلے میں شرعی نقطہ نظر سے فیصلہ چاہتا ہوں۔

تنقیح(1): منعم شاہ بخاری صاحب نے فون پر بتایا کہ:

  • میرے کراچی میں آنے سے پہلے بھائی عقبان شاہ اور ظاہر شاہ ایک دکان چلا رہے تھے، چھوٹی دکان تھی، اس کا کاروبار زیادہ وسیع نہیں تھا۔ اس دکان کے پیچھے ایک مکان بھی تھا۔ میں اس دکان اور مکان میں حصے کا دعویٰ نہیں کرتا۔ میں نے اس دکان میں سرمایہ نہیں لگایا۔
  • اس دکان کی آمدنی سے اس دکان کے متصل دو اور دکانیں خریدی گئی ہیں، ان کی تعمیرِ نو کے وقت انہیں گراکر وہاں تین دکانیں اور اوپر فلیٹ بنادئیے گئے، یہ سب کچھ اس دکان کی آمدنی سے ہوا۔ میں ان میں حصے کا دعویدار ہوں۔
  • اس دکان کے سامنے ایک جگہ تھی، اس پر ہم نے قبضہ کیا، اور وہاں ریت، بجری کا کام شروع کیا۔ یہ کام بھی مذکورہ بالا دکان کی آمدنی سے شروع کیا گیا۔ پھر میرے آنے کے بعد اس جگہ کو حکومت سے لیز کرایا گیا، لیز کی رقم مذکورہ بالا دکان کی آمدنی سے ادا کی گئی۔ بعد میں اس جگہ کے کچھ حصے پہ بھائیوں نے ہوٹل بنایا، اور کرایہ پر دیا۔ میں اس میں بھی حصے کا دعویدار ہوں۔  
  • اس کے علاوہ بھی کچھ جگہ ہم نے قبضہ کر کے اس پرکچے گھر بنائے تھے، میرے آنے کے بعد بھائیوں نے اس کو لیز کرایا، لینٹر کروایا، اور اس پر فلیٹ بنائے، میں اس میں بھی حصے کا دعویدار ہوں۔  
  • مذکورہ بالا دکانوں وغیرہ میں بھائی عقبان شاہ کی آمدنی بھی لگتی تھی، کیونکہ وہ ایکسائز میں نوکر تھے، اور ٹیکسی چلا کر بھی کماتے تھے۔
  • "لاچی" کے جس پلاٹ کا سوال میں ذکر آیا ہے، وہ بھی مذکورہ بالا دکان کی آمدنی سے خریدا گیا تھا۔
  • KDA کا مذکورہ پلاٹ بھی اس دکان کی آمدنی سے خریدا گیا تھا۔

تنقیح(2): ظاہر شاہ بخاری صاحب نے فون پر بتایا کہ:

  • ہمارا ایک مکان، اور دکان منعم شاہ کے کراچی آنے سے پہلے سے تھی۔ اس دکان اور مکان کے پاس دو دکانیں ہم نے خریدیں، منعم شاہ کے پاس تو کچھ نہیں تھا،  چھوٹی سی عمر تھی اس کی، پھر ان کی تعمیرِ نو، اور اوپر فلیٹوں کی تعمیر بھی ہم نے کی۔  
  • ان دکانوں کے سامنے جو جگہ تھی، وہ ہم نے قبضہ نہیں کی، بلکہ منشی نامی ایک بندے سے خریدی تھی۔ منعم شاہ قبضے کی بات کر کے غلط بیانی کر رہا ہے۔ اسی طرح دوسری جگہ جس پر  فلیٹیں ہیں، وہ بھی قبضے کی نہیں، گوجر خان کے ایک آدمی سے ہم خریدی تھی۔
  • منعم شاہ نے پانی لانے وغیرہ کی جو باتیں لکھی ہیں، تو ظاہر سی بات ہے وہ ہمارے ساتھ رہ رہے تھے، پانی کبھی ہم لاتے، کبھی وہ، اسی طرح دوسرا کوئی کام کبھی وہ کرتا، کبھی ہم۔ لیکن اس طرح کے کاموں کی وجہ سے اب وہ جائیداد کا دعویٰ تو نہیں کرسکتا۔
  • جس طرح ہم نے کراچی میں یہ جائیداد بنائی ہے، اسی طرح منعم شاہ نے بھی کوہاٹ میں اپنی جائیدادیں بنائی ہیں۔ جب ہم اس کی جائیداد میں دعویٰ نہیں کر رہے تو یہ کیسے ہماری جائیداد میں حصے کا دعویٰ کر رہا ہے ؟  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ تفصیلات اور تنقیحات کی روشنی میں منعم شاہ نے صرف کراچی میں چھ، ساڑھے چھ سال بھائیوں کے ساتھ رہائش کے دوران کام کیا ہے، جبکہ عقبان شاہ اور ظاہر شاہ، منعم شاہ کے آنے سے پہلے سے دکان چلا رہے تھے، اور منعم شاہ کے (70ء کی دہائی میں) کراچی سے جانے کے بعد بھی انہوں نے ہی کاروبار چلایا ہے، اور جائیداد بنائی ہے۔ لہٰذا:-

(1)۔۔۔ منعم شاہ صاحب نے چھ، ساڑھے چھ سال جو کام کیا ہے، وہ اس کی وجہ سے اس دکان، کاروبار اور ان کے علاوہ خریدی گئی جائیدادوں، اور تعمیر کی گئی دکانوں اور فلیٹوں میں شریک نہیں ہوئے ہیں۔ منعم شاہ کا اس جائیداد میں حصہ داری کا دعویٰ درست نہیں، ان کے اس دعویٰ کا شرعا کوئی اعتبار نہیں۔     

(2)۔۔۔ جہاں تک دکان کے سامنے کی جگہ اور ان فلیٹوں کا تعلق ہے جس کے بارے میں منعم شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ یہ قبضے کی جگہیں تھیں، بعد میں ان دونوں بھائیوں نے لیز کرائیں، جبکہ ظاہر شاہ صاحب کے مطابق وہ دونوں جگہیں انہوں نے خریدی تھیں تو اس میں بھی منعم شاہ کا بہر حال کوئی حصہ نہیں بنتا۔ ظاہر شاہ صاحب کے قول کے مطابق تو منعم شاہ کا اس میں حصہ دار نہ ہونا واضح ہے، خود منعم شاہ صاحب کے بیان کے مطابق بھی ان کا کوئی حق نہیں بنتا؛ کیونکہ صرف ناجائز قبضہ سے ملکیت نہیں آتی۔  

(3)۔۔۔ چھ، ساڑھے چھ سال کام کرنے کی وجہ سے منعم شاہ زیادہ سے زیادہ "اجرتِ مثل" کا مستحق بن سکتا ہے، یعنی اس زمانے میں منعم شاہ جیسا آدمی اس طرح کی دکان پہ اتنا وقت دے کر جتنی اجرت کا مستحق ہوتا، منعم شاہ بھی اصولی طور پر اتنی ہی اجرت کا مستحق ہے۔ لیکن چونکہ کراچی میں چھ، ساڑھے چھ سال رہائش کے دوران ، اور اس کے بعد میڈیکل کی تعلیم کے دوران منعم شاہ کا سارا خرچہ یہ دونوں بھائی اس کو دیتے رہیں، اسی طرح اس دکان کی آمدنی سے " لاچی " میں خریدی گئی زمین میں سے بھی 16 لاکھ روپے منعم شاہ کو دئیے گئے ہیں، اس لیے اگر منعم شاہ کی کوئی اجرتِ مثل بنتی تھی تو وہ اس سب میں ادا ہوگئی ہے، اب وہ اجرتِ مثل کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتا۔    

(4)۔۔۔ منعم شاہ صاحب کی یہ بات درست نہیں کہ اگر مجھے اس دکان کی آمدنی سے خرچہ دیا گیا ہے تو ان دونوں بھائیوں کے گھروں کا خرچہ اور بچوں کی شادیوں کے اخراجات بھی تو اس دکان سے ادا کیے جاتے رہے؛ کیونکہ وہ دونوں بھائی شروع سے اب تک اس سارے کاروبار اور جائیدادوں کو سنبھال رہے ہیں، اور آدمی اپنے کاروبار اور جائیداد سے اپنی ضرورتیں پوری کرنے میں خود مختار ہوتا ہے، اس سے اس کے بارے میں کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ جبکہ منعم شاہ صاحب نے ان کے ساتھ صرف چھ، ساڑھے چھ سال کام کیا تھا، جس کی وجہ سے وہ زیادہ سے زیادہ اجرتِ مثل کا مستحق ہوسکتا ہے، لہٰذا اس کاروبار یا ان دونوں بھائیوں کی طرف سے اس کو جو کچھ دیا گیا ہے، اختلاف کے وقت اسے اجرتِ مثل میں شمار کیا جائے گا۔  منعم شاہ کا چھ، ساڑے چھ سال کام کرنے کی وجہ سے خود کو سب کچھ میں شریک سمجھ لینا درست نہیں۔

حوالہ جات
الدر المختار (6/ 42):
 وفي الأشباه: استعان برجل في السوق ليبيع متاعه فطلب منه أجرا فالعبرة لعادتهم، وكذا لو أدخل رجلا في حانوته ليعمل له.  وفي الدرر: دفع غلامه أو ابنه لحائك مدة كذا ليعلمه النسج وشرط عليه كل شهر كذا جاز، ولو لم يشترط فبعد التعليم طلب كل من المعلم والمولى أجرا من الآخر اعتبر عرف البلدة في ذلك العمل.
رد المحتار (6/ 42):
 ( فالعبرة لعادتهم ) أي لعادة أهل السوق، فإن كانوا يعملون بأجر يجب أجر المثل، وإلا فلا.
تنقيح الفتاوى الحامدية (4/ 420):
في الفتاوى الخيرية: سئل في ابن كبير ذي زوجة وعيال له كسب مستقل حصل بسببه أموالا ومات، هل هي لوالده خاصة أم تقسم بين ورثته؟  أجاب:  هي للابن، تقسم  بين  ورثته  على  فرائض الله تعالى حيث كان له كسب مستقل بنفسه .  وأما قول علمائنا "أب وابن يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء ثم اجتمع لهما مال يكون كله للأب إذا كان الابن في عياله" فهو مشروط كما يعلم من عباراتهم بشروط: منها: (1)  اتحاد الصنعة (2)وعدم مال سابق لهما (3)وكون الابن في عيال أبيه، فإذا عدم واحد منها لا يكون كسب الابن للأب، وانظر إلى ما عللوا به المسألة من قولهم " لأن الابن إذا كان في عيال الأب يكون معينا له فيما يصنع"، فمدار الحكم على ثبوت كونه معينا له فيه فاعلم ذلك اهـ. ...... وأجاب أيضا عن سؤال آخر بقوله: إن ثبت كون ابنه وأخويه عائلة عليه، وأمرهم في جميع ما يفعلونه إليه، وهم معينون له فالمال كله له والقول قوله فيما لديه بيمينه، وليتق الله فالجزاء أمامه وبين يديه، وإن لم يكونوا بهذا الوصف، بل كان كل مستقلا بنفسه، واشتركوا في الأعمال فهو بين الأربعة سوية بلا إشكال، وإن كان ابنه فقط هو المعين والإخوة الثلاثة بأنفسهم مستقلين فهو بينهم أثلاثاً بيقين، والحكم دائر مع علته بإجماع أهل الدين الحاملين لحكمته.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

 26/ذو القعدۃ/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب