021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اللہ سے وعدہ کیاکہ اپنی آمدن کاایک تہائی اللہ کے راستےمیں خرچ کیا کرونگاتوکیاحکم ہوگا؟
77396جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

سوال:ایک شخص نے اللہ تعالی سےوعدہ کیاکہ اپنی آمدن کاایک تہائی اللہ کے راستےمیں خرچ کیاکرونگا،اس کامقصد یہ تھاکہ ایک تہائی دینی کاموں میں صرف کرونگا،اسی لیےاس نے ایک تہائی سےاپنے ساتھ تحقیقی کاموں کےمعاون رکھنےکی صراحت بھی کی،کیونکہ وہ بھی دینی خدمت کاہی ایک شعبہ ہے،نیزاس وقت اس کےدل میں صرف آمدن کاخیال تھا،وراثت کی رقم کاخیال دل میں بالکل موجودنہیں تھا،اس سلسلہ میں درج ذیل سوالات ہیں:

۱۔آمدن میں مستقبل میں حاصل ہونے والی وراثت کی رقم بھی شامل ہوگی؟

۲۔اگرمستقبل میں مدرسہ کی طرف سےذاتی مالکانہ مکان دیاگیاتوکیااس کاایک تہائی بھی اللہ کے راستےمیں دیناہوگا؟

۳۔بیوی بچوں کےنان نفقہ کےعلاوہ جو اخراجات شرعاواجب نہ ہوں جیسے بیوی کےعلاج کاخرچ وغیرہ ؟خصوصاجبکہ اس رقم کےعلاوہ پیسےموجود نہ ہوں اورعلاج کاخرچ بھی زیادہ ہو۔

۴۔کیابچوں کی دینی تعلیم پرہونے والے اخراجات  اس ایک تہائی سےاداء کیےجاسکتےہیں؟

۵۔کیااس رقم سےحج ،عمرہ اورتبلیغی اسفار کیے جاسکتےہیں؟

۶۔کیااس رقم سےدینی کتب خریدی جاسکتی ہیں؟

واضح رہےکہ بندہ نے اگرچہ زبان سےفی سبیل اللہ کےالفاظ کہےتھے،لیکن مقصدیہ تھاکہ یہ رقم کسی دنیوی کام پرخرچ نہیں ہوگی،بلکہ صرف دینی کاموں میں خرچ کرونگا،البتہ یہ بالتفصیل استحضاراس وقت نہیں تھا،نیزاس سے پہلے بندہ بعض اوقات اللہ کے راستےمیں رقم خرچ کرنے کاارادہ کرتااورپھروہ رقم مہمانوں اوردیگردینی کاموں میں خر کرتارہاہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں چونکہ خاص طورپروعدہ کے الفاظ ہیں قسم یانذرکےالفاظ باقاعدہ مذکورنہیں اورصرف وعدہ کے الفاظ سےقسم یانذرمنعقدنہیں ہوتی) کہ اس کوپورانہ کرنے کی وجہ سےکفارہ قسم وغیرہ لازم ہو)،اس  لیےشرعااس   کی حیثیت صرف  وعدہ کی ہوگی،جس کوپورکرنا لازم ہے، اگر کوئی بغیرکسی عذرکےاپنےوعدہ کو پورانہ کرے تووعدہ خلافی کاگناہ ہوگا،جس پرتوبہ واستغفارکرناضروری ہوگا،توبہ واستغفارکےعلاوہ الگ سےکوئی کفارہ وغیرہ لازم نہیں ،ہاں اگرکوئی عذ رہوتوشرعاکوئی گناہ بھی نہ ہوگا۔

اللہ کے راستےمیں خرچ کرنے کااطلا ق ہردینی کام  پرہوگا،اوریہ خرچ کرنانفلی صدقہ شمارہوگا۔

اس تفصیل کےساتھ ساتھ یہ بھی ذہن میں رہےکہ وعدہ میں چونکہ صرف  آمدن کالفظ ذکرکیاگیاہےاورکہتےوقت کوئی خاص تفصیل ذکرنہیں کی گئی،اس لیےآمدن سےمراد(income)ہوگی اورعرفا انکم اورآمدنی سےتنخواہ اورمعمول کاکاروباری نفع مرادہوتاہے،اس لیےاس صورت میں بندہ کوملنےوالی تنخواہ اورمعمول  کےکاروباری نفع کاتہائی حصہ اللہ کےراستےمیں خرچ کرنامراد ہوگا۔

مذکورہ بالا تفصیل کےپیش نظر آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

۱۔مستقبل میں حاصل ہونے والی وراثت آمدن میں  شمار نہیں ہوگی ،کیونکہ عمومی طورپریہ انکم کاحصہ نہیں ہوتی۔اس لیےوراثت میں ملنے والی جائیدادوغیرہ کاتہائی حصہ اللہ کےراستےمیں خرچ کرناضروری نہیں ہوگا۔

۲۔اگرمدرسہ کی طرف سےپالیسی یہی ہوکہ ہرتنخواہ دارملازم کومکان ملکیتادیاجاتاہوتوتنخواہوں کےنظام کےتحت آمدنی اورانکم شمار ہونےکی وجہ سےاس کاتہائی حصہ اللہ کےراستےمیں خرچ کرنالازم ہوگا۔

اوراگرمدرسہ کی طرف سےباقاعدہ تنخواہ کاحصہ نہ ہو،اتفاقایاحادثاتی طوپرملکیتادیاگیاہو(انکم میں شمارنہ ہونےکی وجہ سے)اس کاتہائی حصہ اللہ کےراستےمیں خرچ کرنالازم نہیں ہوگا۔

۳،۴۔احادیث کےمطابق اہل وعیال پرخرچہ کرنےکوصدقہ کہاگیاہےاس لیےمذکورہ صورت میں بیوی بچوں کےاخراجات (چاہےواجب ہوں جیسےنان نفقہ یادینی تعلیم پرہونے والےاخراجات  یاواجب نہ ہوں جیسے علاج معالجہ کےاخراجات  )میں مذکورہ تہائی رقم استعمال کی جاسکتی ہے۔

۵۔ نفلی حج ،عمرہ اورتبلیغی  اسفارمیں یہ تہائی رقم استعمال کی جاسکتی ہے۔

۶۔مذکورہ بالا تہائی مال سے دینی کتب بھی خریدی جاسکتی ہیں۔

سابقہ اس طرح کے کیےگئےوعدےکےبعدچونکہ مہمان یادیگردینی کاموں میں خرچ کرتےرہےہیں ،اس لیےاب مزیدخرچ کرنےکی ضرورت نہیں۔

حوالہ جات
"رد المحتار" 7 / 221:
وقد قال في البدائع في سبيل الله جميع القرب فيدخل فيه كل من سعى في طاعة الله وسبيل الخيرات إذا كان محتاجا ۔
"رد المحتار" 13 / 489:
كتاب الأيمان:( اليمين ) لغة القوة ۔
وشرعا ( عبارة عن عقد قوي به عزم الحالف على الفعل أو الترك ) فدخل التعليق فإنه يمين شرعا إلا في خمس مذكورة في الأشباه ، فلو حلف لا يحلف حنث بطلاق وعتاق ۔وشرطها الإسلام والتكليف وإمكان البر .وحكمها البر أو الكفارة .وركنها اللفظ المستعمل فيها۔
"بدائع الصنائع" 333/6:
فرکن النذر ھو الصیغۃ الدالۃ علیہ، وھو قولہ: للّٰہ عزشانہ عليّ کذا، أو عليّ کذا، أو ہٰذا ہدي، أو ہٰذا صدقۃ، أو مالي صدقۃ".
"الدر المختار للحصفكي" 4 / 13:
الايمان مبنية على العرف، فما تعورف الحلف به فيمين وما لا فلا۔
"أحکام القرآن للجصاص: (آل عمران، الایۃ: 35( 18/2)
قال العلامۃ ابن العربي: حقیقۃ النذر التزام الفعل بالقول مما یکون طاعۃً للّٰہ عزوجل، ومن الأعمال قربۃ، ولایلزم نذر المباح".
"رد المحتار": (735/3:
قولہ: ( ولو نذر إلخ) :قال في شرح الملتقى:والنذر عمل اللسان۔
"الدر المختار"430/3:ھو واجب بالنذر بلسانہ".
قال اللہ تعالی فی  سورۃ المائدہ :آیت 01: یاایہاالذین آمنواوفوبالعقود۔
وقال اللہ تعالی فی سورۃ  بنی اسرائیل: آیت نمبر 34 :واوفوبالعہدان العہدکان مسئولا۔
"تفسير روح البيان لإسماعيل الإستانبولي" 5 / 118:
{وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ} سواء جرى بينكم وبين ربكم أو بينكم وبين غيركم من الناس والإيفاء بالعهد والوفاء به هو القيام بمقتضاه بالمحافظة عليه۔
"تفسير الألوسي"10 /  448:
وأوفوا بالعهد } ما عاهد الله تعالى عليه من التزام تكاليفه وما عاهدتم عليه غيركم من العبادويدخل في ذلك العقود وجوز أن يكون المراد ما عاهدكم الله تعالى عليك وكلفكم به ، والإيفاء بالعهد والوفاء به هو القيام بمقتضاه والمحافظة عليه وعدم نقضه ۔۔۔
فتاوى الإسلام سؤال وجواب-7000فتوى - (ج 1 / ص 1720)
ومحل هذا إذا كان المراد فعل طاعة ، كأن يعاهد الإنسان ربه على أن يصدق الحديث أو يتصدق بشيء من ماله وهكذا . وهذا داخل في النذر وإن لم يصرح قائله بلفظ النذر . فمن عاهد الله أو قال : لله علي أن أفعل شيئا من ذلك لزمه الوفاء به لقول النبي صلى الله عليه وسلم " من نذر أن يطيع الله فليطعه ،ومن نذر أن يعصي الله فلا يعصه " رواه البخاري (6318) .ولا يجوز الإخلال بهذا الالتزام إلا أن يعجز الإنسان عن الوفاء به مطلقا ، فيكفر كفارة يمين ؛ لحديث : " ومن نذر نذرا لا يطيقه فكفارته كفارة يمين " رواه أبو داود (3322) من حديث ابن عباس . قال الحافظ في الفتح : ( رواه ثقات ، لكن أخرجه ابن أبي شيبة موقوفا وهو أشبه۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

 /04ذی الحجہ 1443 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب