021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کے لئے وقف کئے گئے دس مرلے کے پلاٹ پر دیگر چیزوں کی تعمیر کا حکم
77358وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

ایک دس مرلہ کا پلاٹ مسجد کے لئے وقف کیا گیا ہے اور وقف کرنے والے نے اپنے محلہ کے امام مسجد کو وقف کیا تھا،امام مسجد نے کہا تھا کہ وہ یہاں مسجد کے اندر ہی دارالافتاء،شعبہ فلکیات اور لائبریری وغیرہ بنائیں گے،یعنی یہ پلاٹ صرف مسجد کی تعمیر کے لئے ہی دیا گیا تھا اور امام مسجد کو واضح طور پر بتادیا گیا تھا،لیکن امام مسجد نے گراؤنڈ فلور پر صرف دو مرلے جگہ بالکل برائے نام مسجد کے لئے مختص کی ہے اور اس میں بھی مسجد کی کوئی نشانی مثلا محراب،منبر،مینار اور گنبد وغیرہ کچھ نہیں ہے،جبکہ باقی آٹھ مرلے جگہ میں گاڑی کھڑی کرنے کے لئے گیراج،اسٹور،اپنے لئے اٹیچ باتھ،آفس اور حفظ کے اساتذہ کے لئے کمرہ تعمیر کرلیا ہے اور دوسری و تیسری منزل پر فلیٹ بناکر کرائے پر دے دیئے ہیں،جن کے بارے میں امام مسجد کے بیٹوں کا دعوی ہے کہ یہ ان کی رہائش کے لئے ہیں،مسجد میں گیراج میں گاڑی کھڑی ہونے کی وجہ سے آنے جانے والوں کو شدید پریشانی ہوتی ہے۔

نیز یہ ساری تعمیرات مسجد کے نام پر عوام سے جمع کئے گئے چندے سے کی گئی ہیں،مسجد کو اوقاف وغیرہ سرکاری اداروں کے ساتھ رجسٹرڈ بھی نہیں کروایا،یعنی قانونی طور پر بھی مسجد کو مسجد نہیں کہا جاسکتااور نہ اندر اور باہر سے مسجد معلوم ہوتی ہے،بلکہ درحقیقت رہائشی مقصد کے لئے بنائی گئی تین منزلہ عمارت نظر آتی ہے،جب وقف کرنے والے نے اس مشکوک تعمیر اور استعمال کو دیکھ کر مولانا صاحب سے منبر و محراب بنانے کی استدعا کی تو انہوں نے کہا کہ بیت اللہ میں کون سا منبر اور محراب ہے،اب ساری تفصیل کو مد نظر رکھتے ہوئے درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

1۔جوجگہ مسجد کے لئے وقف کی گئی ہے اس جگہ پر مسجد کے علاوہ گیراج،دفتر بمعہ اٹیچ باتھ،اسٹور اور اساتذہ کی رہائش کے لئے تعمیر کی جاسکتی ہے؟ کیا یہ امانت میں خیانت کے زمرے میں نہیں آتا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جو جگہ مسجد کے لئے وقف کی گئی ہو اس جگہ پر دارالافتاء،شعبہ فلکیات اور لائبریری وغیرہ بنانا تو جائز نہیں،البتہ مسجد بننے سے پہلے اس جگہ کے کچھ حصے کویا زمینی یا بالائی میں سے کسی ایک منزل کو مصالح مسجد (وضوخانہ،مسجد کے امام اور مؤذن کے لئے کمرہ،مسجد کے اشیاء کے لئے اسٹور روم،مسجد کی ملکیتی دکان وغیرہ) کی تعمیر کے لئے استعمال میں لایا جاسکتا ہے،بشرطیکہ جو کچھ بنایا جائے اس کا بنیادی مقصد کوئی ایسا کام نہ ہو جو مسجد کےآداب اور تقدس کے خلاف ہو اور وقف کرنے والے کی طرف سے اس کی ممانعت بھی نہ ہو۔

لیکن یہ مد نظر رہے کہ مصالحِ مسجد مسجد کے تابع ہیں،اس لئے وقف کی گئی جگہ کے اکثر حصے کو اس طور پر مصالح مسجد کے لئے استعمال میں لاناجائز نہیں کہ جس سے مسجد کی حیثیت ثانوی ہو کر رہ جائے،چونکہ مذکورہ صورت میں مسجد کے لئے وقف کی گئی کل جگہ ہی دس مرلے ہے،لہذا صرف دو مرلے پربرائے نام مسجد بناکر بقیہ جگہ کو دیگر چیزوں کی تعمیر کے لئے استعمال میں لانا درست نہیں،خصوصاً جب وقف کرنے والے کی جانب سے اس کی اجازت بھی نہ ہو۔

حوالہ جات
"الفتاوى الهندية "(2/ 362):
 "البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه والأصح أنه لا يجوز ،كذا في الغياثية".
"رد المحتار" (4/ 357):
"(قوله أو جعل فوقه بيتا إلخ) ظاهره أنه لا فرق بين أن يكون البيت للمسجد أو لا إلا أنه يؤخذ من التعليل أن محل عدم كونه مسجدا فيما إذا لم يكن وقفا على مصالح المسجد وبه صرح في الإسعاف فقال: وإذا كان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو كانا وقفا عليه صار مسجدا. اهـ. شرنبلالية".
"البحر الرائق" (5/ 271):
"وحاصله أن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى {وأن المساجد لله} [الجن: 18] بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفا لمصالح المسجد فإنه يجوز إذ لا ملك فيه لأحد بل هو من تتميم مصالح المسجد فهو كسرداب مسجد بيت المقدس هذا هو ظاهر المذهب وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتا على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لا يضر في كونه مسجدا ؛لأنه من المصالح.
فإن قلت: لو جعل مسجدا ثم أراد أن يبني فوقه بيتا للإمام أو غيره هل له ذلك قلت: قال في التتارخانية إذا بنى مسجدا وبنى غرفة وهو في يده فله ذلك وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لا يتركه وفي جامع الفتوى إذا قال عنيت ذلك فإنه لا يصدق. اهـ.
فإذا كان هذا في الواقف فكيف بغيره فمن بنى بيتا على جدار المسجد وجب هدمه ولا يجوز أخذ الأجرة وفي البزازية ولا يجوز للقيم أن يجعل شيئا من المسجد مستغلا ولا مسكنا".
"المبسوط للسرخسي "(12/ 94):
"قال: (وإن بنى على منزله مسجدا، وسكن أسفله، أو جعله سردابا، ثم مات: فهو ميراث) . وكذلك إن جعل أسفله مسجدا، وفوقه مسكنا؛ لأن المسجد ما يحرز أصله عن ملك العباد، وانتفاعهم به على قياس المسجد الحرام، وذلك غير موجود فيما اتخذه - حين استثنى العلو أو السفل لمنفعة نفسه -. وعن محمد قال: إن جعل السفل مسجدا: جاز، وإن جعل العلو مسجدا دون السفل: لا يجوز؛ لأن المسجد ما له قرار، وتأبيد في السفل دون العلو. وعن الحسن بن زياد - رحمه الله - أنه إذا دخل العلو مسجدا، والسفل مستغلا للمسجد فهذا يجوز - استحسانا -. وعن أبي يوسف أن ذلك كله جائز، رجع إليه حين قدم بغداد، ورأى ضيق المنازل بأهلها فجوز أن يجعل العلو مسجدا دون السفل والسفل دون العلو، وهو مستقيم على أصله، وقد بينا أنه يوسع في الوقف فكذلك في المسجد".
"فتاوی التاتارخانیة" (8/ 162):
"لو جعل العلو مسجدا والسفل وقفا علی المسجد واخرجہ من یدہ یجوز وکذا لو جعل السفل مسجدا للناس".
"الفتاوى الهندية" (43/ 22):
"وسئل الخجندي عن قيم المسجد يبيح فناء المسجد ليتجر القوم هل له هذه الإباحة ؟ .
فقال : إذا كان فيه مصلحة للمسجد فلا بأس به إن شاء الله تعالى قيل : له لو وضع في الفناء سررا فآجرها الناس ليتجروا عليها وأباح لهم فناء ذلك المسجد هل له ذلك فقال : لو كان لصلاح المسجد فلا بأس به إذا لم يكن ممرا للعامة ، وسئل عن فناء المسجد أهو الموضع الذي بين يدي جداره أم هو سدة بابه فحسب ؟ .
فقال : فناء المسجد ما يظله ظلة المسجد إذا لم يكن ممرا لعامة المسلمين ، قيل له : لو وضع القيم على فناء المسجد كراسي وسررا وآجرها قوما ليتجروا عليها ويصرف ذلك إلى وجه نفسه أو إلى الإمام هل له ذلك فقال : لا .

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

24/ذی الحجہ1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب