021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غیر حاجی کا حجِ بدل کے لیے جانا
77446حج کے احکام ومسائلحج بدل کے احکام

سوال

میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے، اب میری والدہ صاحبہ ان کی طرف سے حجِ بدل کروانا چاہتی ہیں، گھر میں ہم دو امیدوار ہیں، دونوں حافظ قرآن ہیں، میرا نام محمد زبیر سلیم ہے، میں نے حج کیا ہوا ہے، دوسرے میرے بھائی محمد راشد ہیں، انہوں نے حج نہیں کیا ہوا، البتہ عمرہ کیا ہوا ہے، والدہ نے مجھ سے کہا کہ مشورہ کر کس نے جانا ہے؟ سوال یہ ہے کہ ہم دونوں میں سے کون بہتر ہے جو حجِ بدل کے لیے جائے؟ شریعت کی روشنی میں جواب دے کر ممنون فرمائیں۔

وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ والد صاحب کے پاس وفات سے پہلے تقریباً چار لاکھ روپیہ تھا اور تقریباً اتنی رقم کئی سال تک ان کے  اکاؤنٹ میں رہی ہے، مگر چونکہ وہ بیمار تھے، اس لیے حج نہ کر سکے۔اتنی رقم سے اس وقت حج کیا جا سکتا تھا، کیونکہ یہ تقریباً پندرہ سال پہلے کی بات ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے والد صاحب کے ذمہ حج فرض تھا اور فرض حج کی ادائیگی کے لیے حج بدل کروانا ہوتو ایسے شخص کو بھیجنا چاہیے جو پہلے حج کر چکا ہو، کیونکہ حج کے دوران بہت سے شرعی مسائل سے واسطہ پڑتا ہے، جس شخص نے پہلے حج نہ کیا ہوا ہو اس کے لیے بعض مسائل میں غلطی کا امکان ہوتا ہے، اس لیے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ فرض حج کی ادائیگی کے لیے ایسے شخص (جس نے پہلے حج نہ کیا ہو) کاحجِ بدل کے لیے جانا مکروہ تنزیہی یعنی خلافِ اولی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اپنے والد صاحب کی طرف سے حجِ بدل کرنے کے لیے آپ کا جانا زیادہ بہتر ہے،  باقی اگر آپ کا بھائی حج کے مسائل اچھی طرح سیکھ کر اپنے والد کی طرف سے حج کرے تو آپ کے والد کی طرف سے حج ادا ہو جائے گا۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2/ 603) دار الفكر-بيروت:
(ويقع الحج) المفروض (عن الآمر على الظاهر) من المذهب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وقال في الفتح أيضا والأفضل أن يكون قد حج عن نفسه حجة الإسلام خروجا عن الخلاف، ثم قال: والأفضل إحجاج
الحر العالم بالمناسك الذي حج عن نفسه وذكر في البدائع كراهة إحجاج الصرورة لأنه تارك فرض الحج. ثم قال في الفتح بعد ما أطال في الاستدلال: والذي يقتضيه النظر أن حج الصرورة عن غيره إن كان بعد تحقق الوجوب عليه بملك الزاد والراحلة  والصحة فهو مكروه كراهة تحريم لأنه يتضيق عليه في أول سني الإمكان فيأثم بتركه، وكذا لو تنفل لنفسه ومع ذلك يصح لأن النهي ليس لعين الحج المفعول بل لغيره وهو الفوات، إذ الموت في سنة غير نادر. اهـ. قال في البحر: والحق أنها تنزيهية على الآمر لقولهم والأفضل إلخ تحريمية على الصرورة المأمور الذي اجتمعت فيه شروط الحج ولم يحج عن نفسه لأنه أثم بالتأخير اهـ.
الفتاوى الهندية: (الباب الخامس عشر في الوصية بالحج، 258/1) دار الفكر-بيروت:
من عليه الحج إذا مات قبل أدائه فإن مات عن غير وصية يأثم بلا خلاف وإن أحب الوارث أن يحج عنه حج وأرجو أن يجزئه ذلك إن شاء الله تعالى، كذا ذكر أبو حنيفة - رحمه الله تعالى -
الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (3/49- 55) دار الفكر - سوريَّة – دمشق:
اشترط الحنفیۃ عشرین شرطا للحج عن الغیر نذکرھا... أن یحج النائب عن الأصیل من وطنہ ان اتسع ثلث الترکۃ فی حالۃ الوصیۃ بالحج، وأن لم یتسع یحج عنہ من حیث یبلغ۔

 محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

3/محرم الحرام 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب