021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میراث میں لڑکی کا حصہ
77450میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

کیا فرماتے  ہیں  علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں  کہ  درویش انتقال کرگیا ،اس  کے ورثا  میں  ایک   لڑکی  اور  دو  لڑکے حیات تھے ،اس کے  بعد  درویش  کی لڑکی  کا  انتقال ہوگیا ،ورثا  میں   شوہر   ایک لڑکی  اور  دو بھائی   حیات  ہیں ، حال  ہی  میں درویش  کے دونوں   لڑکوں   نے  اپنے والد  کی  45 کنال   زمین  تقسیم کی لیکن  بہن  کو   حصہ  نہیں دیا ۔اب درویش  کی نواسی    درویش کی  جائداد میں  سے اپنی والدہ  کا حصہ مانگ رہی  ہے  کیا اس کا  یہ مطالبہ درست  ہے؟جائداد   میں اس  کا کوئی   حصہ بنتا  ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح ہوکہ  صورت مسئولہ  میں   درویش  کی جائدا  دمیں درویش  کی لڑکی کے توسط  سے  نواسی  کا بھی  حق بنتا  ہے  ۔

درویش کی  وراثت کی  تقسیم

مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ  مرحوم  درویش  نے  انتقال کے  وقت 45 کنال زمین اس کے علاوہ  منقولہ  غیر منقولہ جائداد ،سونا چاندی ،نقد ی  اور اس کے علاوہ  چھوٹا   بڑا  جو بھی  سامان اپنی  ملک میں چھوڑا  ہے  سب مرحو م  کا ترکہ  ہے ، اس میں  سے سب پہلے  مرحوم کے کفن دفن کا  متوسط  خرچہ نکالا جائے ، اسکے بعد  مرحوم کے ذمے  کسی کا قرض  ہو تو اس کو  ادا کیاجائے ،اس کے بعد  مرحوم  نے کسی غیر وارث کے لئے کوئی جائز   وصیت کی ہو   تو تہائی مال کی حد تک اس    پر عمل کیاجائے ،اس کے بعد  مال کو  مساوی   پانچ حصوں  میں  تقسیم کرکے  لڑکی  کو  ایک حصہ  اور دونوں لڑکوں  میں سے  ہرایک کو  دد دو حصے  دئیے جائیں گے۔

 نوٹ ؛ درویش کیلڑکی  کاحصہ 45کنا ل میں سے 9  کنال ہیں جو اس کے  ورثا  کو دیاجائے گا۔

درویش  کی لڑکی  کی وراثت  کی تقسیم

مرحومہ نے نے  انتقال کے  وقت منقولہ  غیر منقولہ جائداد ،سونا چاندی ،نقد ی  اور اس کے علاوہ  چھوٹا   بڑا  جو بھی  سامان اپنی  ملک میں چھوڑا  ہے اس میں   اپنے والد  درویش  کے ترکے  جو حصہ ملا  ہے  وہ شامل کیاجائے یہ   سب مرحو مہ کا ترکہ  ہے ، اس میں  سے  اگرمرحومہ کے ذمے  کسی کا قرض  ہو تو اس کو  ادا کیاجائے ،اس کے بعد  مرحومہ  نے کسی غیر وارث کے لئے کوئی جائز   وصیت کی ہو   تو تہائی مال کی حد تک اس    پر عمل کیاجائے ،اس کے بعد  مال کو  مساوی  آٹھ حصوں میں  تقسیم کرکے  مرحومہ  کے شوہر  کودو  حصےاور   بیٹی  کوچار حصے اور  دونوں  بھائیوں میں سے ہرایک  کو  ایک ایک حصہ دیاجائےگا۔

حوالہ جات
{لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا (7)} [النساء: 7]
{وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ} [النساء: 11]
{فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ} [النساء: 12]

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

       دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

۳محرم  الحرام  ١۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب