021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اپنی تکفین وتدفین اور تعزیت کے مہمانوں کے لئے کھانے کے انتظام کی وصیت کرنا
77439وصیت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

اگر کوئی آدمی اپنی اولاد کی شادی بیاہ کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوکر بقایا میراث زندگی میں ہی شریعت کے مطابق اولاد میں برابر تقسیم کرکے اپنی فوتگی کے اخراجات چھوڑ کر وصیت کرجاتا ہے کہ میری وفات کے موقع پر کفن دفن اور سوگ کے تین دن مہمانوں کی مہمانی کے اخراجات میری متروکہ رقم سے پورے کئے جائیں تو ایسی وصیت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ میت کے ترکہ میں سب سے پہلا حق اس کی تکفین و تدفین کے اخراجات کا ہے،چاہے میت اس کی وصیت کرے یا نہ کرے،الا یہ کہ اس کے لواحقین میں سے کوئی یہ اخراجات اپنے ذمہ لے لے،جبکہ تین دن تک تعزیت کے لئے آنے والے مہمانوں کو کھانا کھلانے کی وصیت صرف ان مہمانوں کی حد تک نافذ ہوگی جو دور دراز سے آئیں اور کھانے کے لئے گھر واپس نہ جاسکتے ہوں،ان کے علاوہ عمومی طور پر تمام مہمانوں کو تین دن تک کھانا کھلانے کی وصیت شرعا باطل ہے،کیونکہ اس طرح عمومی طور پر تمام مہمانوں کے لئے کھانے کا انتظام کرنے سے دعوت کی صورت بن جائے گی اور دعوت خوشی کے موقع پر کی جاتی ہے،نہ کہ غم کے موقع پر۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (6/ 665):
"أوصى (بأن يتخذ الطعام بعد موته للناس ثلاثة أيام فالوصية باطلة) كما في الخانية عن أبي بكر البلخي، وفيها عن أبي جعفر: أوصى باتخاذ الطعام بعد موته ويطعم الذين يحضرون التعزية جاز من الثلث، ويحل لمن طال مقامه ومسافته لا لمن لم يطل ولو فضل طعام إن كثيرا يضمن وإلا لا اهـ.
قلت: وحمل المصنف الأول على طعام يجتمع له النائحات بقيد ثلاثة أيام فتكون وصية لهن فبطلت والثاني على ما كان لغيرهن".
"رد المحتار" (2/ 240)
"(قوله وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله - صلى ﷲ عليه وسلم - «اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم» حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ.
مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت وقال أيضا: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد ﷲ قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ.

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

03/محرم1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب