021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لاپتہ شخص کی میراث
77512میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کاروبار کی تفصیل:

اولاًٍ حاجی جمعہ خان کے والد حاجی مجنون نے افغانستان میں کاروبار شروع کیاتھا اور کچھ زمینیں  خریدی تھیں ،بعد میں یہ کاروبار حاجی جمعہ خان کو میراث میں مل گیاتھا۔

پھر حاجی جمعہ خان کے چار بیٹوں میں سے تین بیٹوں ( حاجی امان اللہ ،حاجی رحمت اللہ اور حاجی محمد عیسی )نے اس کاروبار اور زمینوں کو سنبھالاتھا،اور حاجی عصمت اللہ (جو کہ حاجی جمعہ خان کا چوتھا بیٹا ہے) نےاس کاروبار کو آگے لے جانے اور بڑھانے میں کچھ حصہ نہیں لیاتھا،اور بعد میں ان کا انتقال بھی ان کے والد کی حیات ہی میں ہواتھا،اس دوران حاجی جمعہ خان کے دوبیٹے (حاجی امان اللہ ،حاجی رحمت اللہ)ان کی زندگی ہی میں روسیوں نے اٹھالیے،اور پھرکچھ حال معلوم نہیں ہوا۔بقیہ دوبیٹوں (حاجی محمد عیسی، حاجی عصمت اللہ) نے پاکستان کی طرف ہجرت کی ،حاجی محمد عیسی نے پاکستان میں اپنی رقم سے کاروبار شروع کرکے جائیداد بنائی،گزشتہ مشترکہ کاروبار سے کچھ بھی نہیں لیا۔گویا افغانستان کا مشترکہ کاروبار تین بھائیوں نے آگے بڑھایا،اور پاکستان کا کاروبار فقط حاجی محمد عیسی نے کیا،جبکہ حاجی عصمت اللہ نے کسی بھی کاروبار میں حصہ نہیں لیا۔اور اپنے والد کی حیات ہی میں فوت ہوگیے۔

حاجی جمعہ خان کے ورثہ کی تفصیل:

چار بیٹے(جن کا اوپر ذکر ہوا) اور چار بیٹیاں

بیٹے 1 حاجی امان اللہ کی اولاد:                چھ بیٹے اور تین بیٹیاں

بیٹے 2 حاجی رحمت اللہ کی اولاد:      پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں

بیٹے 3 حاجی عصمت اللہ  کی اولاد:     دو بیٹے  اور چار بیٹیاں

بیٹے 4 حاجی محمد عیسی کی اولا:          تین بیٹے اور نو بیٹیاں

حاجی محمد عیسی کے تین بیٹوں کے نام یہ ہیں:

1۔حاجی بشیر              2۔حاجی رستم           3۔حاجی اسد

حاجی محمد عیسی کے دوبیٹوں حاجی رستم اور حاجی اسد نے اپنے ان چچاؤوں، جن میں سے دو اپنے والد کی حیات ہی میں لاپتہ ہوگئے تھے(حاجی امان اللہ ،حاجی رحمت اللہ) اور ایک کا انتقال ہواتھا(حاجی عصمت اللہ ) کے بیٹوں کے ساتھ مل کر اپنے دادا یعنی حاجی جمعہ خان کی جائیداد اپنے درمیان تقسیم کردی،اس حال میں کہ ان کے تیسرے بھائی(حاجی بشیر بن حاجی محمدعیسی) قید میں تھے،ان کی غیر موجودگی میں یہ تقسیم ہوئی ،ان کو تقسیم کی خبرہی نہیں ہوئی۔اور نہ ہم نے ان کو خبر دی اس لیے کہ وہ جیل میں تھے۔اس تقسیم سے پہلے بھی کئی دفعہ جنجال ہوئے اور ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ میراث میں تمہارا حق نہیں ہے اور اب بھی یہ جھگڑا ہورہاہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ

حاجی جمعہ خان کے جن بیٹوں کو روسیوں نے اٹھایاتھاان کا کیا حکم ہے ؟ ان کے بیٹوں کو میراث میں حصہ ملے گا یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جو شخص  لا پتہ ہوجائے اور اس کی زندگی و موت کا کوئی علم نہ ہو، میراث کے معاملے میں اس کی دو حیثیتیں ہیں:

 (1) ۔مفقود (لاپتہ شخص) اپنے مال میں زندہ سمجھا جائے گا، لہٰذا کوئی دوسرا اس کا وارث نہیں ہوسکتا ۔

(2)۔ دوسرے کے مال میں مردہ سمجھا جائے گا، لہٰذا وہ کسی کا وارث نہیں ہوگا، جب تک کہ اس کی موت حقیقتاً یا حکماً متعین نہ ہوجائے۔حقیقتاً تو یہ کہ اس کا مردہ ہونا حقیقی ذرائع سے معلوم ہوجائے اور حکماً مفقود کو میت قرار دینے کی دو صورتیں ہیں:

ایک یہ کہ اُس کو غائب ہوئے، اتنا لمبا عرصہ گزر جائے کہ اُس کے ہم عصر لوگوں میں کوئی باقی نہ رہے، اس سلسلہ میں قرآن و حدیث میں کوئی خاص مقدار یا خاص مدت ذکر نہیں ہے، فقہ حنفی میں اس سے متعلق سات اقوال ہیں۔ ان میں مشہور قول نوے سال کا ہے.

 دوسری صورت یہ ہے کہ عدالت میں مقدمہ درج کیا جائے، اور عدالت کی طرف سے تحقیق کرنے کے بعد، اس کی موت کا فیصلہ دے دیا جائے۔ 

صورت سوال میں چونکہ حاجی جمعہ خان کی موت تک ان دوحضرات کی موت کا فیصلہ ان تین طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ سے نہیں ہوا ہے۔لہذا حاجی جمعہ خان کی میراث میں سے شرعی طور پر بننے والا ان کا حصہ لے کر محفوظ کیا جائے ،اور خود ان دوحضرات کی میراث بھی تقسیم نہ کی جائے۔اگر یہ زندہ آجاتے ہیں تو میراث میں ان کا محفوظ حصہ ان کے حوالے کیا جائے اور اگران تین طریقوں میں سے کسی کے ذریعے ان کی موت متعین ہوجائے تو جس وقت سے وہ غائب ہیں، اس وقت سے ان کو مردہ تصور کیا جائے گا اور حاجی جمعہ خان کی میراث میں ان کا حق نہیں ہوگا، بلکہ جو حصہ روکا گیا تھا، وہ مورث کے دیگر ورثاء کی طرف ان کے حصص کے بقدر لوٹا دیا جائے گا۔ البتہ ان دوحضرات کا ذاتی مال ان کی  موت متعین ہونے کی صورت میں  ان کے شرعی ورثاء میں تقسیم کردیا جائے گا۔ 

حوالہ جات
"    "الدر المختار " (4/ 298):
(وبعده يحكم بموته في حق ماله يوم علم ذلك) أي موت أقرانه (فتعتد) منه (عرسه للموت ويقسم ماله بين من يرثه الآن و) يحكم بموته (في) حق (مال غيره من حين فقده فيرد الموقوف له إلى من يرث مورثه عند موته) لما تقرر أن الاستصحاب وهو ظاهر الحال حجة دافعة لا مثبتة (ولو كان مع المفقود وارث يحجب به لم يعط) الوارث (شيئا، وإن انتقض حقه) به (أعطي أقل النصيبين) ويوقف الباقي (كالحمل) ومحله الفرائض، ولذا حذفه القدوري وغيره.
"الدر المختار " (4/ 296):
"(ولا يستحق ما أوصى له إذا مات الموصي بل يوقف قسطه إلى موت أقرانه في بلده على المذهب) لأنه الغالب".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ :" (قوله: على المذهب) وقيل يقدر بتسعين سنة بتقديم التاء من حين ولادته واختاره في الكنز، وهو الأرفق هداية وعليه الفتوى ذخيرة، وقيل بمائة، وقيل بمائة وعشرين، واختار المتأخرون ستين سنة واختار ابن الهمام سبعين لقوله - عليه الصلاة والسلام - «أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين» فكانت المنتهى غالبا. وذكر في شرح الوهبانية أنه حكاه في الينابيع عن بعضهم. قال في البحر: والعجب كيف يختارون خلاف ظاهر المذهب مع أنه واجب الاتباع على مقلد أبي حنيفة. وأجاب في النهر بأن التفحص عن موت الأقران غير ممكن أو فيه حرج، فعن هذا اختاروا تقديره بالسن. اهـ.
قلت: وقد يقال: لا مخالفة بل هو تفسير لظاهر الرواية وهو موت الأقران، لكن اختلفوا؛ فمنهم من اعتبر أطول ما يعيش إليه الأقران غالبا، ثم اختلفوا فيه هل هو تسعون أو مائة أو مائة وعشرون، ومنهم وهم المتأخرون اعتبروا الغالب من الأعمار، أي أكثر ما يعيش إليه الأقران غالبا لا أطوله فقدروه بستين؛ لأن من يعيش فوقها نادر والحكم للغالب وقدره ابن الهمام بسبعين للحديث؛ لأنها نهاية هذا الغالب ".

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

04/محرم1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب