021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہر کی وفات کے بعد بچوں کی حضانت کا حکم
77501طلاق کے احکامبچوں کی پرورش کے مسائل

سوال

اس عورت کے دو بچے ہیں،ایک کی عمر تیرہ سال ہے اور دوسرے کی عمر گیارہ سال،اس عورت نے ابھی تک دوسری شادی نہیں کی،پوچھنا یہ ہے کہ ان بچوں کو ساتھ رکھنے کا حق کسے حاصل ہے؟ ماں کو یا دادا بھی اپنے ساتھ رکھ سکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بچے کی پرورش کا سات سال تک،جبکہ لڑکی کی پرورش کا نو سال تک ماں کو حق  حاصل ہوتا ہے،ولی(باپ،دادا وغیرہ) کو زبردستی لینے کا کوئی حق نہیں ہوتا،اس کے بعد ولی چاہے تو لے سکتاہے ،ماں کو روکنے کا حق نہیں ہوتا،البتہ اگر اس دوران ماں نے کسی ایسے مرد سے نکاح کرلیا جو بچے کا محرم رشتہ دار نہ ہو تو اس کی پرورش کا حق ختم ہوجاتا ہے،اس کے بعد نانی کو پرورش کا حق حاصل ہوتا ہے،اگر نانی نہ ہو یا وہ پرورش پر آمادہ نہ ہو تو پھر دادی کو حق حاصل ہوتا ہے۔

ولی کو بلوغت تک بچوں کو اپنے پاس رکھنے کا اختیار ہے،بچے جب بالغ ہوجائیں اور اپنے نفع نقصان کو سمجھنے لگیں تو پھر شریعت نے انہیں اختیار دیا ہے کہ جہاں چاہیں رہیں،کوئی انہیں ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کرسکتا،البتہ اگر بلوغت کے بعد بھی وہ سیانے نہ ہوں اور ان پر بھروسہ نہ کیا جاسکتا ہو تو پھر ولی کوانہیں اپنے پاس رکھنے کا حق حاصل ہے۔

نیز بلوغت کے بعد اگر لڑکی کسی ایسی جگہ رہنا چاہتی ہو،جہاں رہنے میں اخلاقی طور پر اس کے بگڑنے کا اندیشہ ہو،یا اس کی عزت اور آبرو کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو ولی بحیثیتِ سرپرست اسے روک سکتا ہے۔

چونکہ مذکورہ صورت میں دونوں  بچوں کی پرورش کی عمر گزرچکی ہے،اس لئے دادا چاہے تو انہیں والدہ سے لے سکتا ہے،والدہ کو روکنے کا حق نہیں ہے،پھر جب بچے بالغ ہوجائیں تو انہیں اختیار ہوگا کہ وہ والد یا دادامیں سے جس کے پاس رہنا چاہیں رہ سکیں گے۔

حوالہ جات
"الفتاوى الهندية" (1/ 541):
"وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت كذا في فتح القدير".
"الدر المختار للحصفكي " (ج 3 / ص 621):
"(والحاضنة) أما أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع ،وبه يفتى؛ لانه الغالب".
"البحر الرائق " (ج 11 / ص 199):
"( قوله ومن نكحت غير محرم سقط حقها ) أي : غير محرم من الصغير كالأم إذا تزوجت بأجنبي منه لقوله { عليه الصلاة والسلام أنت أحق به ما لم تتزوجي } ولأن زوج الأم إذا كان أجنبيا يعطيه نزرا وينظر إليه شزرا فلا نظر له".
"الفتاوى الهندية" (1/ 542):
"وبعدما استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى يقدم الأقرب فالأقرب كذا في فتاوى قاضي خان. ويمسكه هؤلاء إن كان غلاما إلى أن يدرك فبعد ذلك ينظر إن كان قد اجتمع رأيه وهو مأمون على نفسه يخلى سبيله فيذهب حيث شاء، وإن كان غير مأمون على نفسه فالأب يضمه إلى نفسه ويوليه ولا نفقة عليه إلا إذا تطوع كذا في شرح الطحاوي.
والجارية إن كانت ثيبا وغير مأمونة على نفسها لا يخلى سبيلها ويضمها إلى نفسه، وإن كانت مأمونة على نفسها فلا حق له فيها ويخلى سبيلها وتنزل حيث أحبت كذا في البدائع".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

11/محرم1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب