77754 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ حجامت ( سیلون )کاکام کرنا کیسا ہے اور اس کےپیسے حلال ہیں یا حرام ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
حجامت ( سیلون ) کے کام میں اگر کسی خلاف شرع کام(مثلاً:ڈاڑھی مونڈنا یا ایک مشت سے کم ڈاڑھی تراشنا ، چالیس سال سے زائد عمر والے شخص کو کالا خضاب لگانا ) کا ارتکاب نہ ہو تو اس کے حلال ہونے میں کوئی کلام نہیں ۔لیکن عام طور پر حجام ہر طرح کا حلال حرام کام کرتے ہیں ، اس صورت میں کمائی کا وہ حصہ جو جائز کام کے بدلے حاصل ہوا ہے وہ حلال ہے، اور جو کمائی خلاف شرع کام کے بدلے حاصل ہو وہ حرام ہوگی ۔ حرام کمائی کو بغیر نیت ثواب صدقہ کرنا ضروری ہو گا ۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی :ولذا یحرم علی الرجل قطع لحیتہ .(الدر المختار: 583/9)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی: (لا )یکرہ (دھن شارب )ولا (کحل) إذا لم یقصدالزینۃ أو تطویل اللحیۃإذا کانت بقدر المسنون وھو القبضۃ،………وأما الأخذ منھا وھی دون ذلک کما یفعلہ بعض
المغاربۃ ، و مخنثۃ الرجال ؛ فلم یبحہ أحد. (الدرالمختار مع حاشیتہ رد المحتار:398,397/3)
قال العلامۃ الشلبی رحمہ اللہ تعالی : (ولا یجوز علی الغناء والنوح ) قال شیخ الإسلام علاء الدین الإسبیجابی فی شرح الکافی: ولا تجوز الإجارۃ علی شئی من الغناء ، والنوح ، والمزامیر والطبل ……ولاأجر
فی ذلک ، و ھذا کلہ قول أبی حنیفۃ و أبی یوسف و محمد ؛ لأنہ معصیۃ و لھو ولعب ، والإستیجار علی المعاصی و اللعب لا یجوز ؛ لأنہ منھی عنہ .(حاشیۃ الشلبی علی کنزالدقائق:118/6 )
قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ تعالی :وعلی ھذا یخرج الإستیجار علی المعاصی أنہ لایصح ، لأنہ إستیجارعلی منفعۃ غیرالمقدورۃالإستیفاء شرعاً؛ کاستیجارالإنسان للعب واللھو .
(بدائع الصنائع :562/5)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی : لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ .
(رد المحتار : 553/9 )
محمد مدثر
دارالافتاء ، جامعۃ الرشید ، کراچی
۱۴/صفر الخیر /۱۴۴۴ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد مدثر بن محمد ظفر | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |