021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بہنوں کا میراث میں موجود اپنا حصہ بھائیوں کوبخشنا
77609میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہم دو بھائی ہیں اور ہماری چار بہنیں تھیں جن میں سے ایک بہن اور بھائی وفات پاچکے ہیں،اب اس ایک بھائی نے میراث میں بہنوں کا جتنا حصہ بنتا تھا اسے الگ کردیا  اور زبانی طور پر ہر ایک بہن کے حصے کی تعیین بھی کردی تھی،واضح رہے کہ یہ حصہ کھیتوں کی صورت میں تھا اور ایک آدھ سیزن تک بھائی نے اس میں کوئی تصرف نہیں کیا،بلکہ بہنوں سے کہا کہ یہ آپ کا حصہ ہے،آپ اس کے ساتھ جو چاہیں کریں،چنانچہ بہنیں ان کھیتوں میں گئیں اور کھیتوں میں گھومنے پھرنے کے بعد بھائی سے کہا کہ ہم آپ سے حصہ نہیں لینا چاہتیں،لہذا ہم یہ کھیت بھی آپ کو بخشتے ہیں،البتہ آپ سے جب اور جتنا ہوسکے ہمارے ساتھ مالی تعاون کردیا کریں،جس پر بھائی نے جواب دیا کہ مالی تعاون کا تو میں آپ سے باقاعدہ حصے کے بدلے میں وعدہ نہیں کرتا،البتہ اپنی استطاعت کے مطابق آپ لوگوں کا خیال رکھنے کو کوشش کروں گا،بقیہ آپ لوگوں نے اپنا حصہ لینا ہے تو لے لیں۔

نیز جس بہن کا انتقال ہوگیا تھا اس کا حصہ اس کی بیٹیوں کے حوالے کیا گیا،لیکن انہوں نے بھی ماموں سے کہا کہ ہم یہ آپ کو بخشتے ہیں،یعنی ہبہ کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کرنے کے بعد اب بھائی کو بہنوں کا حصہ نہ دینے کا گناہ تو نہیں ہوگا اور یہ کہ بہنوں اور بھانجیوں کی طرف سے دوبارہ واپسی کے بعد ان کا میراث کا حق ختم ہوگیا ہے یا نہیں؟

تنقیح:جس بھائی کا انتقال ہوچکا ہے اس کا حصہ اس کی اولاد کے حوالے کردیا گیا ہے،جبکہ جس بہن کا انتقال ہوا ہے،اس کا حصہ اس کی بیٹیوں کو تقسیم کرکے نہیں دیا گیا،بلکہ ماں کا پورا حصہ ان کو علیحدہ کرکے دیا گیا۔

نیز متوفی بہن کے ورثہ میں بیٹیوں کے علاوہ دیگر ورثہ بھی تھے،لیکن چونکہ ان بچیوں کے والد بھی وفات پاگئے تھے،اس لئے دیگر ورثہ متوفی بہن کی میراث میں اپنے حصوں سے ان بچیوں کے حق میں دستبردار ہوگئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ اس زمین میں ہمارا جو حصہ ہے وہ ہم تمہیں چھوڑتے ہیں،اب تمہاری مرضی کہ تم اپنے ماموں سے لو یا نہ لو۔

ہم دو بھائی ہیں اور ہماری چار بہنیں تھیں جن میں سے ایک بہن اور بھائی وفات پاچکے ہیں،اب اس ایک بھائی نے میراث میں بہنوں کا جتنا حصہ بنتا تھا اسے الگ کردیا  اور زبانی طور پر ہر ایک بہن کے حصے کی تعیین بھی کردی تھی،واضح رہے کہ یہ حصہ کھیتوں کی صورت میں تھا اور ایک آدھ سیزن تک بھائی نے اس میں کوئی تصرف نہیں کیا،بلکہ بہنوں سے کہا کہ یہ آپ کا حصہ ہے،آپ اس کے ساتھ جو چاہیں کریں،چنانچہ بہنیں ان کھیتوں میں گئیں اور کھیتوں میں گھومنے پھرنے کے بعد بھائی سے کہا کہ ہم آپ سے حصہ نہیں لینا چاہتیں،لہذا ہم یہ کھیت بھی آپ کو بخشتے ہیں،البتہ آپ سے جب اور جتنا ہوسکے ہمارے ساتھ مالی تعاون کردیا کریں،جس پر بھائی نے جواب دیا کہ مالی تعاون کا تو میں آپ سے باقاعدہ حصے کے بدلے میں وعدہ نہیں کرتا،البتہ اپنی استطاعت کے مطابق آپ لوگوں کا خیال رکھنے کو کوشش کروں گا،بقیہ آپ لوگوں نے اپنا حصہ لینا ہے تو لے لیں۔

نیز جس بہن کا انتقال ہوگیا تھا اس کا حصہ اس کی بیٹیوں کے حوالے کیا گیا،لیکن انہوں نے بھی ماموں سے کہا کہ ہم یہ آپ کو بخشتے ہیں،یعنی ہبہ کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کرنے کے بعد اب بھائی کو بہنوں کا حصہ نہ دینے کا گناہ تو نہیں ہوگا اور یہ کہ بہنوں اور بھانجیوں کی طرف سے دوبارہ واپسی کے بعد ان کا میراث کا حق ختم ہوگیا ہے یا نہیں؟

تنقیح:جس بھائی کا انتقال ہوچکا ہے اس کا حصہ اس کی اولاد کے حوالے کردیا گیا ہے،جبکہ جس بہن کا انتقال ہوا ہے،اس کا حصہ اس کی بیٹیوں کو تقسیم کرکے نہیں دیا گیا،بلکہ ماں کا پورا حصہ ان کو علیحدہ کرکے دیا گیا۔

نیز متوفی بہن کے ورثہ میں بیٹیوں کے علاوہ دیگر ورثہ بھی تھے،لیکن چونکہ ان بچیوں کے والد بھی وفات پاگئے تھے،اس لئے دیگر ورثہ متوفی بہن کی میراث میں اپنے حصوں سے ان بچیوں کے حق میں دستبردار ہوگئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ اس زمین میں ہمارا جو حصہ ہے وہ ہم تمہیں چھوڑتے ہیں،اب تمہاری مرضی کہ تم اپنے ماموں سے لو یا نہ لو۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ورثہ کا میراث میں جو حصہ بنتا ہے اس پر قبضہ کرنے کے بعد وہ چاہیں تو اپناحصہ کسی دوسرےکو ہبہ کرسکتے ہیں،اس لئے مذکورہ صورت میں اگر زندہ بہنوں نے کسی قسم کے جبر اور دباؤ کے بغیر محض اپنی دلی خوشی اور رضامندی سے اپنا حصہ بھائی کو دوبارہ واپس کردیا ہے تو ان کا حق متعلقہ زمین سے ختم ہوچکا ہے۔

البتہ جس بہن کا انتقال ہوچکا ہے ،اس کے بیٹیوں کے ماموں کو اپنا حصہ واپس دینے کے باوجود ان کے حصے میں ان کا حق ختم نہیں ہوا،کیونکہ اس حصے میں اس مرحومہ بہن کی بیٹیوں سمیت اس کی وفات کے وقت موجود دیگر زندہ ورثہ کا بھی حق تھا،اگرچہ دیگر ورثہ نے ان بچیوں کو اپنا حق معاف کردیا تھا،لیکن جب تک میراث کا مال اپنی اصل حالت میں موجود ہو تب تک ورثہ میں سے کسی کے معاف کرنے سے اس کا حصہ معاف نہیں ہوتا،کیونکہ اعیان سے ابراء صحیح نہیں،چونکہ مذکورہ صورت میں جب متوفی بہن کے دیگرورثہ نے ان کی بچیوں کو میراث میں موجود اپنا حق معاف کیا تھا تب میرإث کا مال اپنی اصلی شکل میں باقی تھا،جبکہ بہن کے حصے میں آنے والی زمین ابھی تک اپنی اصلی شکل میں موجود ہے،اس لئے متوفیہ بہن کےدیگر ورثہ  کی معافی کے باوجودمیراث میں سے ان کا حصہ ساقط نہیں ہوا۔

اور جب دیگر ورثہ کا حق ساقط نہیں ہوا تو بھانجیوں کی جانب سے انہیں دیئے گئے حصے کی واپسی شرعا درست نہیں ہوئی،کیونکہ بھانجیوں کی جانب سے ماموں کو اپنا حصہ واپس دینا ہبہ ہے اور ہبہ کے صحیح ہونے کے لئے شرط یہ ہے کہ جو چیز ہبہ کی جائے وہ مملوک اور مقسوم ہو،جبکہ مذکورہ صورت میں اس کھیت میں موجود دیگر ورثہ کا حصہ بھانجیوں کی ملکیت نہیں تھا اور اپنے حصے کے بقدر کھیت اگرچہ ان کی ملکیت توتھا،لیکن ان کاحصہ اس میں سے متعین نہیں کیا گیاتھا،اس لئے مرحومہ بہن کے حصے میں اس کے ورثہ کا حق بدستور باقی ہے۔

اگر مرحومہ کے دیگر ورثہ ہمدردی کی خاطر اپنا حصہ اس کی بیٹیوں کو  دینا چاہتے ہیں تو اس کا  آسان طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے دیگر ورثہ ترکہ میں سے کوئی چھوٹی(کم قیمت) چیز لے کر اس کے بدلے اپنے بقیہ حصے سے دستبردار ہوجائیں۔

پھر اس کے بعد اگر وہ چاہیں تو جو اشیاء انہوں نے ترکہ میں سے اپنے حصے کے بدلے لی ہوں دوبارہ مرحومہ کی بچیوں کو واپس دے سکتے ہیں،لیکن یہ واضح رہے کہ ان کی طرف سے واپسی ہبہ کے حکم میں ہوگی اور ہبہ کے تام ہونے کے لئے ضروری ہے کہ جو چیز جسے ہبہ کی جائے اس کے قبضے میں بھی دے دی جائے اور اگر ایک سے زیادہ لوگوں کو کوئی ایسی چیز ہبہ کی جائے جو تقسیم کے قابل ہو تو اسے باقاعدہ تقسیم کرکے ہر ایک کو اس کا حصہ علیحدہ کرکے  دیا جائے۔

جب مذکورہ بالا طریقے کے ذریعے مرحومہ کی بچیوں کے علاوہ دیگر ورثہ کا حق ان کے ترکہ(یعنی وہ سونا،چاندی،نقدی،جائیداد یا اس کے علاوہ کوئی بھی چھوٹا بڑا سامان جو وفات کے وقت مرحومہ بہن کی ملک میں تھا) سے ختم ہوجائے تو اس کے بعد یہ بھائی ان کی ماں کا حصہ ان کے درمیان تقسیم کرکے ان کےحوالے کردے،پھر اس کے بعد اگر وہ اپنا یہ حصہ دوبارہ ماموں کو واپس کردیں گی تو ان کا حق ختم ہوجائے گا۔

حوالہ جات
"غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائرللحموي" (3/ 354):
" لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك، والحق يبطل به حتى لو أن أحدا من الغانمين قال قبل القسمة: تركت حقي بطل حقه، وكذا لو قال المرتهن: تركت حقي في حبس الرهن بطل،كذا في جامع الفصولين للعمادي، وفصول العمادي .
قوله: لو قال الوارث: تركت حقي إلخ. اعلم أن الإعراض عن الملك أو حق الملك ضابطه أنه إن كان ملكا لازما لم يبطل بذلك كما لو مات عن ابنين فقال أحدهما: تركت نصيبي من الميراث لم يبطل لأنه لازم لا يترك بالترك بل إن كان عينا فلا بد من التمليك وإن كان دينا فلا بد من الإبراء، وإن لم يكن كذلك بل ثبت له حق التملك صح كإعراض الغانم عن الغنيمة قبل القسمة كذا في قواعد الزركشي من الشافعية ولا يخالفنا إلا في الدين، فإنه يجوز تمليكه ممن هو عليه.
قوله: كذا في جامع الفصولين. يعني في الثامن والثلاثين وعبارته: قال أحد الورثة برئت من تركة أبي؛ يبرأ الغرماء عن الدين بقدر حقه لأن هذا إبراء عن الغرماء بقدر حقه فيصح ولو كانت التركة عينا لم يصح. ولو قبض أحدهم شيئا من بقية الورثة وبرئ من التركة وفيها ديون على الناس لو أراد البراءة من حصة الدين صح لا لو أراد تمليك حصته من الورثة لتمليك الدين ممن ليس عليه".
"المبسوط للسرخسي "(12/ 64):
 "قال: (وإذا وهب الرجل للرجل نصيبا مسمى من دار غير مقسومة، وسلمه إليه مشاعا، أو سلم إليه جميع الدار: لم يجز) يعني: لا يقع الملك للموهوب له بالقبض قبل القسمة – عندنا".
"بدائع الصنائع " (6/ 121):
"ولو وهب منه نصف الدار وسلم إليه بنحلة الكل ثم وهب منه النصف الآخر وسلم لم تجز الهبة لأن كل واحد منهما هبة المشاع وهبة المشاع فيما يقسم لا تنفذ إلا بالقسمة والتسليم ويستوي فيه الجواب في هبة المشاع بين أن يكون من أجنبي أو من شريكه كل ذلك لا يجوز لقول جماعة من الصحابة - رضي ﷲ عنهم - لا تجوز الهبة إلا مقبوضة محوزة من غير فصل".
"تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق" (5/ 49):
"قال – رحمهﷲ - (وإن أخرجت الورثةأحدهم عن عرض أو عقار بمال، أو عن ذهب بفضة، أو بالعكس) أي عن فضة بذهب (صح قل، أو كثر) يعني قل ما أعطوه أو كثر؛ لأنه يحمل على المبادلة؛ لأنه صلح عن عين ولا يمكن حمله على الإبراء إذ لا دين عليهم ولا يتصور الإبراء عن العين".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

24/محرم1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب