021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
متعدد بیویوں میں زیادہ کام کرنے والی بیوی کوزیادہ خرچ عدل کے منافی نہیں۔
77299نکاح کا بیانکئی بیویوں میں برابری کا بیان

سوال

زوجات  میں سے کوئی باہمی طے شدہ کاموں میں بہت کوتاہی کرے اور اس کے حصے کا کام بھی دوسری کوکرنا پڑےتوزیادہ کام کرنے والی کوبطورمعاوضہ یاانعام اضافی خرچ دیناعدل کےمنافی تو نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مرد پر متعدد بیویوں کے درمیان صرف حقوق نکاح اوراختیاری اموریعنی نان نفقہ اور رہائش ومعاشرت میں عدل ومساوات کرنا ضروری ہے،البتہ کسی بیوی کی کسی بھی اضافی یا اچھی کارکردگی کی بنیادپر بطور انعام یاآپس میں رضامندی سے تقسیم اور طے کردہ  مشترکہ گھریلو  کاموں میں سے ایک بیوی کو دوسری کے ذمہ طے شدہ کام کرنے کی بنیادپر معاوضہ   کے طور پرکچھ اضافی دیا جائے تویہ عدل کے منافی نہیں۔

واضح رہے کہ بیوی پر خاوند کی خدمت دیانۃ لازم ہے،لہذا ایسے کام جو شوہر کی خدمت کے قبیل سے ہوں ان میں دوسرے سے زیادہ کام کرنے پر عورت کو اجرت کے مطالبہ کا قانونی حق نہیں،البتہ شوہر خود دینا چاہےتو منع یا خلاف عدل بھی نہیں،البتہ نان ،نفقہ یعنی  واجبی اخراجات کی مد میں  دونوں میں برابری ضروری ہے، نیزکسی عمل اور کارکردگی کے بغیر محض اظہار محبت کے لیےہدیہ اور تحفہ دینے میں بھی مساوات کو علماء نے ضروری لکھا ہے۔ (فتاوی دار العلوم دیوبند:۸،ص۲۹۰)

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 201)
(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب.
 (قوله وفي الملبوس والمأكول) أي والسكنى، ولو عبر بالنفقة لشمل الكل. ثم إن هذا معطوف على قوله فيه، وضميره للقسم المراد به البيتوتة فقط بقرينة العطف وقد علمت أن العدل في كلامه بمعنى عدم الجور لا بمعنى التسوية فإنها لا تلزم في النفقة مطلقا. قال في البحر: قال في البدائع: يجب عليه التسوية بين الحرتين والأمتين في المأكول والمشروب والملبوس والسكنى والبيتوتة، وهكذا ذكر الولوالجي والحق أنه على قول من اعتبر حال الرجل وحده في النفقة. وأما على القول المفتى به من اعتبار حالهما فلا فإن إحداهما قد تكون غنية والأخرى فقيرة، فلا يلزم التسوية بينهما مطلقا في النفقة. اهـ. وبه ظهر أنه لا حاجة إلى ما ذكره المصنف في المنح من جعله ما في المتن مبنيا على اعتبار حاله
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 599)
ونفقات الزوجات المختلفة مختلفة بحالهما.
 (قوله ونفقات الزوجات إلخ) في الذخيرة والولوالجية: وإذا كان للرجل نسوة بعضهن أحرار مسلمات وبعضهن إماء ذميات فهن في النفقة سواء؛ لأنها مشروعة للكفاية وذلك لا يختلف باختلاف الدين والرق والحرية إلا أن الأمة لا تستحق نفقة الخادم. اهـ. قال في البحر: وينبغي أن يكون هذا مفرعا على ظاهر الرواية من اعتبار حاله، وأما على المفتى به فلسن في النفقة سواء لاختلاف حالهن يسارا وعسرا فليست نفقة الموسرة كنفقة المعسرة، ولا نفقة الحرة كالأمة كما لا يخفى، ولم أر من نبه عليه. اهـ قال المقدسي: ولا معنى لهذا بعد قولهم؛ لأن النفقة مشروعة للكفاية إلخ. اهـ أي لأنه صريح في ذلك.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۹ ذیقعدہ۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب