021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حاملہ کی عدت اور اسقاط حمل
77411طلاق کے احکامعدت کا بیان

سوال

مجھے اپنی بہن کے بارے میں پوچھنا ہے.میری بہن کی شادی مئی 2022 میں ہوئی. گھریلو مسائل اور لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے آج بروز منگل 26 جولائی کوانہوں نے غصے میں تینوں طلاقیں دےدی ہیں. اور جبکہ وہ 3-4ہفتوں کی حاملہ ہے. چونکہ اب رشتہ ختم ہو چکا. تو یہ واضح فرما دیں کہ آیا عدت بچے کی پیدائش تک ہوگی؟ یا اگر اسقاط حمل کرا دیں تو اس صورت میں عدت کب تک رہے گی؟ اور اسقاط حمل کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں. جزاکم اللہ

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حاملہ کی عدت تو اصولی طور پر بچے کی پیدائش سے پوری ہوتی ہے،اور اسقاط حمل کے ذریعہ عدت پوری کرنےکے بارے میں حکم یہ ہے کہ چار ماہ گزرنے کے بعد اسقاط حمل جائز نہیں، البتہ اگر کسی نے ساقط کردیا تو عدت پوری ہوجائے گی اور چار ماہ سے قبل  اسقاط کے بارے میں بھی راجح اور مفتی بہ قول یہ ہے کہ جائز نہیں، مع ہذا اگر کوئی اسقاط کرادے تو اس کے بعد تین حیض گزارنے سے عدت پوری ہوگی اور ایسی صورت میں اسقاط کے بعد کم از کم تین دن بھی خون آنا ایک حیض شمار ہوگا اور اس کے بعد دو مزید حیض گزارنے پڑیں گے۔ تین دن سے کم خون حیض شمار نہیں ہوسکتا ،لہذا  اس کے بعد تین مستقل حیض گزارنے سے عدت پوری ہوگی۔(احسن الفتاوی:ج۵،ص۴۳۲)

البتہ بعض اہل علم نے طلاق کی عدت کی صورت میں چار ماہ  سے کم حمل کے اسقاط کی اس شرط سے گنجائش دی ہے کہ  خاوندبھی اس کی اجازت دے۔( فتاوی مفتی محمود :ج۱۱،ص۳۱۶)

حوالہ جات
۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

 یکم محرم۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب