021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مورث کی زندگی میں وفات پانے والے وارثوں کا حکم
77659میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ایک خاتون کا انتقال ہوگیا ہے اور اُن کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، جن میں سے دو بیٹوں کا انتقال اُن کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا۔ اور ایک بیٹی بیوہ ہے جس کی کوئی اولاد نہیں ہے اور وہ ماں کے ہی زیر کفالت رہتی تھی۔

جن بیٹوں کا انتقال والدہ کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا، کیا اُن کی اولاد وراثت میں حصہ دار ہوگی؟ بیوہ بیٹی جو کہ ماں کے زیرِ کفالت تھی، اُس کو کل میں سے کتنا حصہ دیا جائے گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دو بیٹوں کا انتقال چونکہ والدہ کی حیات ہی میں ہوگیا تھا، لہذا اُن کا والدہ کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا اور نہ ہی اُن بیٹوں کی اولاد کا کوئی حصہ ہوگا، اور والدہ کی وراثت صرف دو بیٹے اور دو بیٹی (جو کہ والدہ کے انتقال کے وقت حیات تھے) میں تقسیم ہوگی۔ البتہ جن بیٹوں کا والدہ کی زندگی میں انتقال ہوا تھا ان کے بیٹے اگر محتاج ہوں تو ان بیٹوں کو ازروع احسان و تبرع اتنا حصہ دیا جائے جس سے وہ ضروری معاش احتیاجات پوری کر سکیں۔

والدہ کے کل ترکہ میں سے دونوں بیٹیوں میں سے ہر بیٹی کو 16.7% اور دونوں بیٹوں میں سے ہر بیٹے کو 33.3% حصہ ملے گا۔

حوالہ جات
فی الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: 3/22
"وللإرث شروط ثلاثة، ...ثانيها: تحقق حياة الوارث بعد موت المورث".

طارق مسعود

دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

28، محرم الحرام، 1444

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طارق مسعود

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب