77726 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
میں 19سال کا ہوں ، میرے والد صاحب وفات پا گئے ہیں اور میں اپنے چچا کے ساتھ رہتا ہوں، وہ میری ہر چیز کا خرچہ اٹھاتے ہیں ، میرے والد صاحب نےPrize Bond خریدے تھے ، چونکہ Prize Bond سود میں آتے ہیں تو کیا ان کو واپس بیچنا جائز ہے یا نہیں ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
پرائز بانڈ کی خریداری در حقیقت قرض دینا ہے اور اس پر ملنےوالا انعام اس’’ قرض پر نفع‘‘ ہے ، جو کہ آیت مبارکہ }يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا الربا أضعافا مضاعفة واتقوا اللہ لعلكم تفلحون { (آل عمران 130:) اورحدیث مبارکہ ’’ کل قرض جرمنفعۃ فھو رباً ‘‘کی رو سے سود ہے اور پرائز بانڈ بیچنے کا مطلب اپنا قرض وصول کرنا ہے ، لہذا صرف اپنی رقم واپس لی جا سکتی ہے ، اس سے زائد لینا جائز نہیں ہے ۔
حوالہ جات
قال اللہ تبارک و تعالی :}وإن تبتم فلکم رؤوس أموالکم لا تظلمون ولا تظلمون { (البقرۃ : 279)
و فی تفسیر الطبری تحت ھذہ الآیۃ : عن سعيد بن أبي عروبة، عن قتادة في قوله:’’وإن تبتم فلكم رؤوس أموالكم‘‘ ، قال: ما كان لهم من دَين، فجعل لهم أن يأخذوا رؤوس أموالهم، ولا يزدادُوا عليه شيئًا. (تفسیر طبری : 27/6 )
قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ تعالی : وأما الذی یرجع إلی نفس القرض فھو أن لا یکون فیہ جر منفعۃ ……..…لما روی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أنہ نھی عن قرض جر نفعاً ؛ ولأن
الزیادۃ المشروطۃ تشبہ الربا ؛ لأنھا فضل لا یقابلہ عوض ، والتحرز عن حقیقۃ الربا و عن شبھۃ الربا واجب. (بدائع الصنائع :597/10 )
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں : انعامی بانڈ پر جو رقم بطور انعام ملتی ہےوہ سود اور قمار پر مشتمل ہونے کی بناپرناجائز ہے ، اور اس کا وصول کرنا حرام ہے۔ اگر بانڈ خرید لیا ہو تو صرف اپنی دی ہوئی اصل رقم وصول کر سکتے ہیں۔ (فتاوی عثمانی:307/3)
محمد مدثر
دارالافتاء ، جامعۃ الرشید ، کراچی
۰۷/صفر الخیر /۱۴۴۴ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد مدثر بن محمد ظفر | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |