021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خریدے گئے پرائز بانڈز واپس بیچنے کا حکم
77726جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

میں 19سال کا ہوں ، میرے والد صاحب وفات پا گئے ہیں اور میں اپنے چچا کے ساتھ رہتا  ہوں، وہ میری ہر چیز کا خرچہ اٹھاتے ہیں ، میرے والد صاحب نےPrize Bond    خریدے تھے ،  چونکہ Prize Bond  سود میں آتے ہیں تو کیا ان کو واپس بیچنا جائز ہے یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پرائز بانڈ   کی خریداری در حقیقت   قرض دینا   ہے   اور اس پر  ملنےوالا   انعام اس’’ قرض  پر  نفع‘‘ ہے ، جو کہ آیت مبارکہ }يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا الربا أضعافا مضاعفة واتقوا اللہ  لعلكم تفلحون { (آل عمران 130:)  اورحدیث مبارکہ   ’’ کل قرض جرمنفعۃ فھو رباً ‘‘کی رو سے سود ہے   اور پرائز بانڈ بیچنے کا مطلب اپنا قرض وصول کرنا ہے ، لہذا صرف اپنی  رقم واپس لی جا سکتی ہے ، اس سے زائد لینا  جائز نہیں  ہے ۔

حوالہ جات
قال اللہ تبارک و تعالی :}وإن تبتم فلکم رؤوس أموالکم  لا تظلمون ولا تظلمون {       (البقرۃ : 279)
و فی  تفسیر الطبری تحت ھذہ الآیۃ  :  عن سعيد بن أبي عروبة، عن قتادة في قوله:’’وإن تبتم فلكم رؤوس أموالكم‘‘ ،  قالما كان لهم من دَين، فجعل لهم أن يأخذوا رؤوس أموالهم، ولا يزدادُوا عليه شيئًا.     (تفسیر طبری :  27/6   )
قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ تعالی : وأما الذی یرجع إلی نفس القرض فھو  أن لا یکون فیہ جر منفعۃ  ……..…لما روی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  أنہ نھی عن قرض جر نفعاً  ؛ ولأن
الزیادۃ المشروطۃ  تشبہ الربا ؛ لأنھا  فضل لا یقابلہ عوض ، والتحرز عن حقیقۃ الربا و عن شبھۃ الربا واجب.   (بدائع الصنائع   :597/10 )
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں :  انعامی  بانڈ پر جو رقم بطور انعام ملتی ہےوہ سود اور قمار پر مشتمل  ہونے کی  بناپرناجائز   ہے ، اور اس کا وصول کرنا حرام ہے۔ اگر بانڈ خرید لیا ہو تو صرف اپنی دی ہوئی اصل رقم وصول کر سکتے ہیں۔     (فتاوی عثمانی:307/3)

محمد مدثر

 دارالافتاء  ، جامعۃ الرشید  ، کراچی

۰۷/صفر الخیر /۱۴۴۴ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مدثر بن محمد ظفر

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب