021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میاں بیوی کے ایک دوسرے پرحقوق
77721نان نفقہ کے مسائلبیوی کا نان نفقہ اور سکنہ ) رہائش (کے مسائل

سوال

 اس حوالے سے کیاکیا چیزیں بیوی اور شوہر پر لازم ہیں؟کیاکیا نہیں؟یعنی میاں بیوی کے ایک دوسرے پر کیا حقوق ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میاں بیوی کا رشتہ ایک انتہائی حساس اور نازک ترین رشتہ ہے،پرسکون ازدواجی زندگی کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب میاں بیوی میں سے ہر ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت رکھے،اس کے بغیر ازدواجی زندگی پرسکون نہیں ہوسکتی،عورت اگر یہ چاہے کہ میں شوہر کو گھر کا سربراہ اور اپنا بڑا تسلیم نہ کروں،اس کے مقام و مرتبے کا لحاظ نہ رکھوں،لیکن شوہر میرے حقوق میں ذرا بھی غفلت نہ برتے تو یہ شوہر کی حق تلفی ہے،اسی طرح اگر شوہر خود بیوی کے حقوق کی کوئی پرواہ نہ کرے،لیکن چاہے کہ بیوی مکمل طور پر میری مطیع و فرماں بردار بن کر رہے تو یہ بھی سراسر نا انصافی اور ظلم ہے،کیونکہ وہ اس کی بیوی ہے،زر خرید لونڈی نہیں،چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

{وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ} [البقرة: 228]

اور ان عورتوں کو معروف طریقے کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کو ان پر حاصل ہیں،ہاں مردوں کو ان پر ایک درجہ فوقیت ہے اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔

اس آیت میں میاں بیوی کے تعلقات کا ایسا جامع دستور پیش کیا گیا ہے جس سے بہتر کوئی دستور نہیں ہو سکتا اور اگر اس جامع ہدایت کی روشنی میں ازدواجی زندگی گزاری جائے تو اس رشتہ میں کبھی بھی تلخی اور اختلاف پیدا نہ ہو،یہ آیت بتا رہی ہے کہ بیوی محض نوکرانی اور خادمہ نہیں، بلکہ اس کے بھی کچھ حقوق ہیں،البتہ شوہر کو بیوی پر فضلیت حاصل ہے جس کا لحاظ رکھنا بیوی پر لازم ہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ اگر شریعت میں کسی کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کیا کرے۔

میاں بیوی کے چند بنیادی حقوق درج ذیل ہیں:

شوہر کے حقوق:

1۔شوہر کی اطاعت :بیوی کے ذمے ہر جائز کام میں شوہر کی اطاعت لازم ہے،کیونکہ اللہ تعالی نے مرد کو حاکم بنایا ہے،البتہ ناجائز کام میں اطاعت کی اجازت نہیں،کیونکہ مخلوق کی رضا اور دلجوئی کی خاطر خالق کی نافرمانی جائز نہیں۔

2۔شوہر کے مال اور عصمت کی حفاظت :یعنی شوہر کے مال اور اپنی عزت کی حفاظت کرے،شوہر کا مال غیر ضروری کاموں میں نہ خرچ کرے اور نہ کسی نامحرم مرد سے تعلقات قائم کرے۔

3۔ زیب و زینت: عورت کو گھر میں میلا کچیلا نہیں رہنا چاہیے،بلکہ صاف ستھری رہے اور شرعی حدود میں رہتے ہوئے بناؤ سنگھار کرے۔

 4۔ خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ جائے،البتہ خاوند کو بھی اس حوالے سے بے جا سختی نہیں کرنی چاہیے،بلکہ بوقتِ ضرورت خود لے کر جانا چاہیے۔

بیوی کے حقوق:

1۔ مہر کی ادائیگی :اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:عورتوں کو ان کا مہر راضی و خوشی سے ادا کردو ۔(سورةالنساء:4)نکاح کے وقت مہر کی تعیین اور شب زفاف سے قبل اس کی ادائیگی ہونی چاہیے ،اگر چہ طرفین اتفاق سے مہر کی ادائیگی کو موٴخر بھی کر سکتے ہیں۔

2۔نان نفقہ: شریعت نے عورت کا نان نفقہ شوہر کے ذمے لازم کیا ہے،لہذا بیوی کے کھانے،پینے،پہننے اور رہائش کا انتظام شوہر کے ذمے اس کی حیثیت کے مطابق لازم ہے،چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

{أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ } [الطلاق: 6]

ان عورتوں کو اپنی حیثیت کے مطابق اسی جگہ رہائش مہیا کرو جہاں تم رہتے ہو اور انہیں تنگ کرنے کے لیے انہیں ستاؤ نہیں۔

3۔حسن معاشرت:شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

{وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا} [النساء: 19]

ان کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو اور اگر تم انہیں پسند نہ کرتے ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔

نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک کا مفہوم ہے کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہوں۔

علاوہ ازیں میاں بیوی کا تعلق ایسا نہیں کہ صرف ضابطہ کے حقوق معلوم کرکے اس کے مطابق گزر اوقات کی جائے،بلکہ میاں بیوی میں سے ہر ایک ضابطہ کے حقوق سے بڑھ کر ایک دوسرے کے ساتھ جتنی خیر خواہی،ہمدردی اور محبت کا برتاؤ اور معاملہ  کریں گے اتنی ہی ازداوجی زندگی پرسکون ہوگی۔

حوالہ جات
"التفسير المنير للزحيلي" (2/ 328):
"وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ: ليس الزواج في الإسلام عقد استرقاق وتمليك، وإنما هو عقد يوجب حقوقا مشتركة ومتساوية بحسب المصلحة العامة للزوجين، فهو يوجب على الزوج حقوقا للمرأة، كما يوجب على المرأة حقوقا للزوج. وفي هذا التعبير الموجز ثلاثة أحكام:
الأول- للنساء من حقوق الزوجية على الرجال مثل ما للرجال عليهن، مثل حسن الصحبة والمعاشرة بالمعروف، وترك المضارّة، واتقاء كل منهما الله في الآخرة، وطاعة الزوجة لزوجها، وتزين كل منهما للآخر.....
الثاني- إعفاف كل من الزوجين الآخر بحسب الحاجة، ليستغني كل منهما عن التطلع إلى غيره، ويتوخى الوقت المناسب، ويعالج كل منهما نفسه بالأدوية اللازمة إذا شعر من نفسه عجزا عن تأدية حق الآخر.
الثالث- للرجال درجة (أي منزلة) على النساء: وهي درجة القوامة والولاية، وتسيير شؤون الأسرة، كما قال الله تعالى: الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلى بَعْضٍ، وَبِما أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوالِهِمْ [النساء 4/ 34] أي أن مسوغ التفضيل وإعطاء درجة القيادة له أمران:
أ- تكوين الرجل بزيادة خبرته واتزانه وعقله، وإعداده لتحمل الأعباء والكفاح والعمل.
ب- إلزامه بالإنفاق على المرأة: بدفع المهر وتوفير الكفاية لها من مسكن وملبس ومطعم ومشرب ومداواة ونحو ذلك.
هذه الدرجة في الحقيقة كما تبيّن: هي غرامة وتكليف للرجال أكثر من تكليف النساء، لذا كان حق الزوج عليها أوجب من حقها عليه، ولهذاقال عليه الصلاة والسلام: «لو أمرت أحدا بالسجود لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها» ......
والخلاصة: الزواج شركة بين اثنين، وعلى كل شريك أن يؤدي للآخر حقوقه، ويقوم بما يجب عليه له بالمعروف، كماثبت في صحيح مسلم عن جابر: أن رسول الله صلّى الله عليه وسلّم قال في خطبته في حجة الوداع: «فاتقوا الله في النساء، فإنكم أخذتموهن بأمانة الله، واستحللتم فروجهن بكلمة الله، ولكم عليهن أن لا يوطئن فرشكم أحدا تكرهونه، فإن فعلن ذلك، فاضربوهن ضربا غير مبرح، ولهن رزقهن وكسوتهن بالمعروف» .
وفي حديث بهز بن حكيم عن معاوية بن حيدة القشيري عن أبيه عن جده أنه قال: يا رسول الله، ما حق زوجة أحدنا؟ قال: «أن تطعمها إذا طعمت، وتكسوها إذا اكتسيت، ولا تضرب الوجه، ولا تقبّح، ولا تهجر إلا في البيت» ".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

09/صفر1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب