81242 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | ہبہ کےمتفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
میرے بھائی عبدالرزاق کا باڑہ میں میرے گھر کے برابر ایک گھر تھا ،اس گھر کا قبضہ بھائی نےمجھے دیدیا تھا،اور کچھ سالوں کے بعد مجھے میرےاسی بھائی نے اختیار دیا کہ میں اپنااوران کا مکان بیچ ڈالوں اور کراچی میں ان پیسوں سے مکان خریدلوں، چنانچہ میں نے اپنے بھائی کا مکان 19لاکھ میں اور اپنا مکان 40لاکھ میں بیچ کر کراچی میں گھر خریدلیا، مجھے میرے بھائی عبدالرزاق نے کہا کہ میرے گھر کی قیمت 19لاکھ میں سے کچھ رقم دو بہنوں کو دیدینا، میں نے اپنے بھائی سے کہا کسی اور کو بھی دینا ہے؟ تو میرے بھائی عبدالرزاق نے کہا کہ کسی اور کو کچھ بھی نہیں دینا ،اس کے بعد میرا بھائی دو سال تک زندہ رہا، بھائی کے انتقال کے تقریباً چھ مہینے بعد میرا ایک اور بھائی عبدالرحیم اب کہتا ہے کہ 19لاکھ میں میرا بھی حصہ ہے جبکہ میرے بھائی عبدالرزاق نے اپنی زندگی میں مجھے وہ رقم دیدی تھی اور اس رقم میں سے صرف دو بہنوں کو دینے کے لئے کہا تھا، مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ
مذکورہ 19لاکھ کی رقم کس کی ہوگی؟ اور میرے بھائی عبدالرحیم کا یہ مطالبہ کرنا اورکہناکہ میرا بھی اس میں حصہ ہے صحیح ہے یا نہیں ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دے کر ہماری رہنمائی فرمائیں.
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مسئولہ صورت میں اگر وہ مکان عبد الرزاق مرحوم کا ذاتی تھا اورمشترکہ موروثی مکان نہیں تھا اورواقعةً اس نے بیچنے کا کہہ کرقیمت آپ کو دی اوراس میں سے صرف دو بہنوں کو دینے کا کہا اور باقی رقم آپ کو ہبہ کی جیسے کہ آپ نے لکھا تو پھر ان دونوں بہنوں کودینے کے بعدباقی رقم آپ کی ہوگی اورعبد الرحیم بھائی کا اس میں کوئی حق نہیں ہوگا۔
تاہم اگریہ گھر موروثی ہو یا عبد الرحیم کا دعوی یہ ہو کہ بھائی نے مجھے بھی دینے کاکہا تھا یا اس کے دعوی کی کوئی اورمعقول شرعی وجہ ہو اوراس پر ان کے پاس گواہ بھی ہوں تو پھر حکم اس سےمختلف ہوسکتاہے جو پوری صورتِ حال لکھ کردوبارہ دارالافتاء سے دریافت کیا جاسکے گا۔
حوالہ جات
وفی الدر المختار للحصفكي مع رد المحتار - ( (وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل.(ج:5ص:690)
شعب الإيمان لأبو بكر البيهقي - (ج 4 / ص 387)
عن علي بن زيد عن أبي حرة الرقاشي عن عمه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : لا يحل مال امرىء مسلم إلا بطيب نفس منه.
السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي - (ج 10 / ص 252)
عن ابن أبى مليكة قال : كنت قاضيا لابن الزبير على الطائف فذكر قصة المرأتين قال فكتبت إلى ابن عباس فكتب ابن عباس رضى الله عنهما إن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال :« لو يعطى الناس بدعواهم لادعى رجال أموال قوم ودماءهم ولكن البينة على المدعى واليمين على من أنكر ».
رد المحتار - (ج 23 / ص 34)
رجل تصرف زمانا في أرض ورجل آخر رأى الأرض والتصرف ولم يدع ومات على ذلك لم تسمع بعد ذلك دعوى ولده فتترك على يد المتصرف لأن الحال شاهد ا هـ حامدية عن الولوالجية .
رد المحتار - (ج 21 / ص 476)
عن ابن الغرس عن المبسوط إذا ترك الدعوى ثلاثا وثلاثين ، ولم يكن مانع من الدعوى ثم ادعى لا تسمع دعواه ؛ لأن ترك الدعوى من التمكن يدل على عدم الحق ظاهرا ا هـ وفي جامع الفتوى عن فتاوى العتابي قال المتأخرون من أهل الفتوى : لا تسمع الدعوى بعد ست وثلاثين سنة.
الفتاوى الهندية - (ج 25 / ص 22)
وإن لم تكن للمدعي بينة وأراد استحلاف هذا الوارث يستحلف على العلم عند علمائنا - رحمهم الله تعالى - بالله ما تعلم أن لهذا على أبيك هذا المال الذي ادعى وهو ألف درهم ولا شيء منه .فإن حلف انتهى الأمر وإن نكل يستوفى الدين من نصيبه.
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
21/2/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |