021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
متعین مکان کی خریداری کا وکیل بنانا اور وکیل کا اپنے نام کروانے کا حکم
77641وکیل بنانے کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

میرے والد صاحب مرحوم نے ہمارے چچا یعنی اپنے چھوٹے بھائی کو ایک مکان کی خریداری کے لیے 1988ء يا 1989ء ميں 50000 روپے دیے، والد صاحب چونکہ سیاسی اسیری پر تھے، اس لیے وہ مکان کی خریداری کے عمل میں شریک نہ ہوسکے، چچا نے مکان لے کر پہلے اس میں دنیوی تعلیم شروع کی، سلسلہٴ تدریس زیادہ عرصہ نہ چلنے کے باعث اسکول ختم کرکے وہاں رہائش اختیار کر لی، میرے والد میرے دادا کے مکان میں رہائش پذیر تھے اور وہیں سے ان کا انتقال ہوا، انتقال سے کچھ سال قبل والد نے چچا سے مکان کی واپسی کا تقاضا کیا، تاکہ وہ اس میں رہائش اختیار کریں اور دادا کے مکان کو بیچ کر لواحقین میں جائیداد کی تقسیم کا عمل مکمل ہو، اس بات کا علم خاندان کے کچھ افراد کو بھی ہے،مگر چچا نے مکان نہ دیا، اصل میں چچا نے مکان خرید کر اپنے نام کروا لیا تھا، والد صاحب نے انتقال سے پہلے اپنے بھانجے کے ذمہ جائیداد کی تقسیم کا عمل لگایا تھا، جس پر کبھی کسی کو اشکال نہیں ہوا۔اب والد صاحب کی چچا کو دی گئی رقم کا مسئلہ درپیش ہے،سوال یہ ہے کہ رقم کی ادائیگی کتنے قیراط کے سونے کی مالیت سے لگائی جائے گی؟

وضاحت: سائل نے بتایا کہ متعین مکان کے خریدنے کا کہا تھا، جو چچانے خرید کر اپنے نام کروا لیا، اب ہم مکان کی بجائے رقم لینا چاہتے ہیں، ہم رقم کی ویلیویشن کروا کر اس کے بدلے میں سونا یا اتنی رقم لینا چاہتے ہیں تو کیا یہ جائز ہے؟ مکان میں چونکہ چچا رہائش پذیر ہے، اس لیے مکان لینا مناسب نہیں ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی وضاحت کے مطابق آپ کے والد صاحب نے آپ کے چچا کو متعین مکان کی خریداری کا وکیل بنایا تھا اور کسی متعین چیز کی خریداری کا وکیل بنانے کی صورت میں فقہائے کرام رحمہم اللہ نے تصریح کی ہے کہ وکیل وہ چیز اپنے لیے نہیں خرید سکتا، اگرچہ وہ خریدتے وقت اپنے لیے خریدنے کی نیت کر لے، تب بھی وکیل اس چیز کا مالک نہیں بنے گا، بلکہ شرعاً وہ چیز موکل یعنی وکیل بنانے والے شخص کی ہی ملکیت سمجھی جائے گی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں یہ مکان آپ کے والد صاحب کی زندگی میں ان کی ملکیت تھا اور اب ان کی وفات کے بعد ان کے ورثاء اپنے شرعی حصوں کے مطابق اس کے مالک ہیں، اس لیے اصولی طور پر آپ حضرات کو اپنے چچا سے یہ مکان لینے کا حق حاصل ہے، البتہ اگر آپ کا چچا مکان واپس کرنے کے لیے تیار نہیں ہے تو مکان کی قیمت طے کر کے اتنی رقم یا باہمی رضامندی سےاس کے برابر سونا وصول کر سکتے ہیں۔

باقی رقم کی ویلیویشن کروانے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ رقم بیچنے والے کی ملکیت میں جا چکی ہے، اس لیے رقم کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ مکان کی مالیت کا اعتبار ہو گا۔

حوالہ جات
مجلة الأحكام العدلية (ص: 289) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
المادة (1485) ليس لمن وكل باشتراء شيء معين أن يشتري ذلك الشيء لنفسه حتى لا يكون له وإن قال: عند اشترائه اشتريت هذا لنفسي بل يكون للموكل إلا أن يكون قد اشتراه بثمن أزيد من الثمن الذي عينه الموكل أو بغبن فاحش إن لم يكن الموكل قد عين الثمن فحينئذ يكون ذلك المال للوكيل وأيضا لو قال الوكيل اشتريت هذا المال لنفسي حال كون الموكل حاضرا يكون ذلك المال للوكيل.
درر الحكام شرح مجلة الأحكام للعلامة علي حيدر(3/593)دار الجيل:
قوله"وإن قال: عند شرائه اشتريت هذا لنفسي بل يكون للموكل" التعيين إما باسم الإشارة أو بالعلم أو بالإضافة كان وكله أن يشتري له هذا المال بثمن مسمى (تكملة رد المحتار) يعني لا يجوز ولا يتصور اشتراء وتفرغ الوكيل لنفسه أو لأجل موكله الآخر؛ لأن الموكل لما كان معتمدا على الوكيل وعلى كونه سيشتريه له، فإذا اشتراه لنفسه بالذات كان ذلك موجبا لتغرير الموكل.
وكذلك يعتبر شراء الوكيل إياه لنفسه عزل. وتمام هذا العزل يكون باستماع الموكل خبر ذلك العزل (البحر) . وللوكيل باشتراء شيء معين كما يستفاد من هذا الدليل أن يشتري لنفسه بعد أن يعزل نفسه من الوكالة ويبلغ استعفاءه لموكله. سواء رضي الموكل بهذا العزل أو لم يرض. أما قبل أن يبلغ خبر العزل لموكله فليس له أن يشتريه لنفسه (صرة الفتاوى، الولوالجية)

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

13/صفرالمظفر 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب