021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چلتے کاروبار کو اجارہ پر دینا
77818اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے جدید مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری ایک کپڑوں کی دکان ہے،آجکل کے حالات کی وجہ سے مجھے کاروبار میں نقصان ہورہا ہے،میرے ایک رشتہ دار دکاندار نے مجھ سے کہا کہ آپ یہ دکان میرے حوالہ کردیں،تو ہم دونوں یہ معاہدہ کرنے جارہے ہیں کہ میں پانچ سال کے لیے اس کو اپنا دکان اجارہ پر دیدوں گا،اس طور پر کہ ابھی دکان میں موجود جتنی مالیت کا کپڑا ہے وہ اور سارے قرضے اس کے حوالے کردوں گا،وہ دکان چلائے گا اور مجھے ہر ماہ پندرہ ہزار روپے لم سم دے گا،اس سے اوپر  جتنا وہ کمائے وہ اس کی ملکیت ہوگی،پانچ سال کے بعد جس مالیت پر میں نے اس کو دکان حوالے کیا ہے وہ مجھے اسی مالیت پر دکان واپس کرے گا۔کیا اس طرح کا معاہدہ کرنا جائز ہے؟اگر جائز نہیں تو کوئی جائز طریقے بتادیں تاکہ ہمارا یہ معاہدہ شرعی تقاضوں کے مطابق ہو۔   

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 فقہ کی اصطلاح میں کسی بھی چیز کےحقیقی وجود کو باقی رکھتے ہوئے اس کی منفعت(Usufructs)کو خاص مدت تک کسی عوض یا اجرت کے بدلے حاصل کرنے کا نام اجارہ ہے۔ اجارہ داری کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز کو کرایہ پر دی جارہی ہے اس کا وجود باقی رہے،اگر استعمال کرتے ہوئےاس کا وجود برقرار  نہ رہتا ہو تو وہ اجارہ نہیں، بلکہ بیع کہلاتی ہے۔ اس تعریف کی روشنی میں کپڑے کے چلتے ہوئے کاروبار کو اجارہ پر دینا جائز نہیں،کیونکہ اس میں کپڑے کو باقی رکھتے ہوئے اس سے استفادہ نہیں کیا جاتا،بلکہ اس کی خرید وفروخت ہوتی ہے اور آگے مشتری(خریددار) کی ملکیت میں چلا جاتا ہے۔اس کی جائز صورتیں مندرجہ ذیل ہیں:

1-مضاربت کا طریقہ: اس طریقہ کے مطابق سب سے پہلے دکان میں موجود کپڑے کی مالیت معلوم کی جائے اور اسی کو رأس المال بناکر آگے شخص کو مضاربت پر دیدے،اس صورت میں آپ رب المال (سرمایہ فراہم کرنے والا) ہوں گے اور جس کو کاروبار کرنے کے لیے کپڑا دیا ہے وہ مضارب (محنت کرنے والا) کہلإئے گا،مضارب کپڑے کا کاروبار کرے گا اور اس کاروبار کا جب آخری اور حتمی حساب کتاب ہوگا تو اس میں سب سے پہلے جتنا سرمایہ آپ نے پہلی مرتبہ اس کو حوالہ کیا ہے وہ نکالا جائےگا،اس کے بعد جو کچھ بچے گا اس کو نفع کے طور پر طے شدہ تناسب (آدھا آدھا یا ساٹھ اور چالیس یا کوئی اور فیصد جس پر بھی فریقین راضی ہوں) سے تقسیم کیا جائے گا۔اس طریقے پر آپ مذکورہ شخص کے ساتھ پانچ سال تک کی مضاربت کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں آپ کے ذمہ جو کاروباری قرض ہے وہ مضاربت میں شمار نہیں ہوگا،بلکہ جتنی مالیت کے کپڑے آپ اس کو حوالہ کریں گے وہی اصل سرمایہ شمار ہوگا،اس کے علاوہ قرض سرمایہ شمار نہیں ہوگا۔البتہ آپ کا جو قرض لوگوں کے ذمہ ہے اس کو سرمایہ بناسکتے ہیں اگر مضارب اس پر راضی ہو۔یہ قرض قبضہ کے بعد مضاربت میں شامل ہوسکے گا۔

2-شرکت الأموال کا طریقہ،یعنی فریقین کی طرف سےرأس المال(سرمایہ)جمع کرکے مشترک کاروبار کرنا:اس طریقہ کے مطابق بھی سب سے پہلے دکان میں موجود کپڑے کی مالیت معلوم کرکے اسی کو اپنے طرف سے کاروبار کے لیے سرمایہ کے طور پر متعین کردے،اس کے بعد دوسرے شخص سے کہے کہ وہ بھی اپنی طرف سے سرمایہ جمع کردے،پھر ان دونوں سرمایہ کو جمع کرکے دیکھ لے کہ آپ کا کاروبار میں کتنے فیصد کا سرمایہ ہے اور دوسرے شریک کا کتنا فیصد ہے،اس کے بعد ہر شریک کی طے شدہ کاروباری سرگرمیوں(Business Activities)کے نتیجے میں جو نفع یا نقصان ہوگا اس میں سب شرکاء شریک ہوں گے،نفع میں شریک ہونا تو اسی تناسب سے ہوگا جو شرکاء نے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ طے کیا ہویعنی آدھا آدھا یا ساٹھ اور چالیس فیصد وغیرہ ،جبکہ نقصان ہر ایک کا اس کے سرمایہ کے بقدر ہوگا،اگر کاروبار میں نقصان ہوا تو ہر شریک اپنے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ نقصان برداشت نہیں کرے گا۔شرکت میں نفع طے کرنے سے متعلق درج ذیل امور کی رعایت ضروری ہے:

1-نفع کا حصہ فیصدی تناسب (Percentage Ratio)کی صورت میں رکھا جائے،لہذا اگر کسی شریک کے لیے متعین رقم کی شرط لگائی گئی تو اس سے شرکت کا عقد فاسد ہوجائے گا۔

2-نفع سرمایہ کے فیصدی تناسب کے لحاظ سے طے نہ ہو،بلکہ حاصل ہونے والے حقیقی نفع کے فیصدی تناسب کی صورت میں طے ہو۔

3-نفع اس کو قرار دیا جائے جو اخراجات نکالنے کے بعد صافی منافع (Net Profit)کے طور پر بچ رہا ہو۔

4-یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی شریک دوسرے کے لیے نفع کی فراہمی یا اس کے سرمایہ کی حفاظت کا ضامن(Guarantor) نہ بنے۔

اس صورت میں بھی آپ کے ذمہ جو کاروباری قرض ہے وہ اس شرکت میں شمار نہیں ہوگا،کیونکہ شرکت کے لیے نقد مال ضروری ہے،قرض پر شرکت نہیں ہوسکتی۔

حوالہ جات
(الموسوعة الفقهية الكويتية : ج: 1 ،ص: 229،257)
"الإجارة في اللّغة اسم للأجرة... وعرّفها الفقهاء : بأنّها عقد معاوضة على تمليك منفعة بعوض..... مع أنّ الإجارة من قبيل البيع فإنّها تتميّز بأنّ محلّها بيع المنفعة لا العين . في حين أنّ عقود البيع كلّها التّعاقد فيها على العين ...ويشترط لانعقاد الإجارة على المنفعة شروط هي :
27 - أوّلاً : أن تقع الإجارة عليها لا على استهلاك العين. "
(مجلة الأحكام العدلية : ص: 254،الناشر: قدیمی کتب خانہ)
"المادة ( 1329 ):شركة العقد عبارة عن عقد شركة بين اثنين أو أكثر على كون رأس المال والربح مشتركا بينهم."
المادة ( 1341 ) کون رأس المال عینا شرط،فلا یجوز ان یکون الدین یعنی الذی فی ذمم الناس رأس مال الشرکة،مثلا إذا کان لاثنین فی ذمة آخر دین فلا یجوز أن یتخذ رأس مال و  تعقد الشرکة علیہ،وکذا اذا کان رأس مال احدھما عینا ورأس مال الآخر دینا فالشرکة غیر صحیحة."
(مجلة الأحكام العدلية : ص: 272،الناشر: قدیمی کتب خانہ)
"كذلك إذا قال : اقبض كذا درهما الدين الذي لي في ذمة فلان ،واستعمله في طريق المضاربة ، وقبل الآخر فتكون المضاربة صحيحة."

  ابراراحمد

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

 ١۸/ صفر/١۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ابراراحمد بن بہاراحمد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے