021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جی ڈی اے کے پاس بطورِ ضمانت رکھی ہوئی زمین پر زکوۃ کا حکم
77805زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

Gawadar Development Authority ((GDAگوادر کا ایک حکومتی ادارہ ہے۔ جب کوئی بلڈر گوادر میں زمین خریدتا ہے تو GDA بلڈر کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ پلاٹنگ سے لے کر ڈیولپمنٹ کے اختتام تک سارے کام اصول وضوابط   کے مطابق صحیح طریقہ پر انجام دے۔ اس بات کی یقین دہانی کےلیے بلڈر کی پراپرٹی کا تیس فیصد حصہ اپنے پاس رکھتا ہے، اس زمین کو نہ بلڈر استعمال کرسکتا ہے نہ حکومت۔  جب بلڈر کام مکمل کرتا ہے تو GDA اس کو یہ زمین واپس کردیتا ہے۔ یہ زمین بھی بیچنے کے لیے ہوتی ہے، چنانچہ جب یہ زمین GDA سے واپس ملتی ہے تو وہ اس کی پلاٹنگ کر کے اس کو بھی بیچتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ GDA کے پاس جو زمین رکھی جاتی ہے، اس کی زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟   

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ امانت کی زکوۃ اس کے مالک پر لازم ہوتی ہے۔ صورتِ مسئولہ میں بلڈر GDA کے پاس جو زمین رکھتا ہے وہ امانت ہوتی ہے، اور مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق یہ زمین مالِ تجارت ہے، اس لیے اس زمین کے مالک پر ہر سال اپنے دیگر اموالِ زکوۃ کے ساتھ اس کی زکوۃ ادا کرنا بھی لازم ہوگا، چاہے زکوۃ کی ادائیگی کے وقت یہ زمین حکومت کے پاس ہو یا مالک کو واپس مل چکی ہو۔    

حوالہ جات
بدائع الصنائع (2/ 9):
ولو دفع إلى إنسان وديعة ثم نسي المودع فإن كان المدفوع إليه من معارفه فعليه الزكاة لما مضى إذا تذكر؛ لأن نسيان المعروف نادر، فكان طريق الوصول قائما، وإن كان ممن لا يعرفه فلا زكاة عليه فيما مضى؛ لتعذر الوصول إليه.  
البحر الرائق (2/ 218):
وأما كسب العبد المأذون، فإن كان عليه دين محيط فلا زكاة فيه على أحد بالاتفاق، وإلا فكسبه لمولاه وعلى المولى زكاته إذا تم الحول، نص عليه في المبسوط والبدائع والمعراج. وهو بإطلاقه يتناول ما إذا تم الحول وهو في يد العبد، لكن قال في المحيط: وإن لم يكن عليه دين ففيه الزكاة،
ويزكي المولى متى أخذه من العبد،  ذكره محمد في نوادر الزكاة. وقيل: ينبغي أن يلزمه الأداء قبل الأخذ؛ لأنه مال مملوك للمولى كالوديعة. والأصح أنه لا يلزمه الأداء قبل الأخذ لأنه مال تجرد عن يد المولى لأن يد العبد يد أصالة عن نفسه لا يد نيابة عن المولى بدليل أنه يملك التصرف فيه إثباتا وإزالة، فلم تكن يد المولى ثابتة عليه حقيقة ولا حكما، فلا يلزمه الأداء ما لم يصل إليه كالديون، ولا كذلك الوديعة، ا ه.
المبسوط للسرخسي (3/ 203):
قال: وزكاة الفطر في العبد الموصى بخدمته على مالك الرقبة وارثا كان أو موصى له؛ لأنه تقرر السبب في حقه، فأما الموصى له بالخدمة فحقه في المنفعة لا في الرقبة. وكذلك العبد المستعار والمؤاجر تجب الصدقة على المالك دون المستعير والمستأجر. وكذلك عبد الوديعة تجب الصدقة عنه على المودع؛ فإن يد المودع كيده.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

   20/صفر المظفر/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب