021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کمیٹی کا مختلف وجوہات کی بنیاد پر امام کو معزول کرنے کا حکم
77814وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

ہماری مسجد کا نام جامع مسجد وردگ ہے، یہ مسجد محلہ وردگ، گاؤں نرتوپہ، تحصیل حضرو، ضلع اٹک میں واقع ہے۔  ہماری مسجد کے امام صاحب کا اخلاقی رویہ انتہائی کمزور ہے، وہ نمازیوں کی عزت نفس کا بالکل خیال نہیں رکھتے جس کی وجہ سے نمازیوں کی ایک کثیر تعداد  (ان کے نام مع دستخظ استفتاء کے ساتھ لف ہیں) نے ان کی اقتداء میں نماز پڑھنا چھوڑ دیا۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے کمیٹی نے امام صاحب  کی معزولی کا فیصلہ کیا تو امام صاحب نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا ، اور چونکہ وہ کافی عرصہ  سے امام ہیں اور محلے کے لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں اس لیے انہوں نے اپنی مظلومیت کا  پروپیگنڈا  کر کے کمیٹی کے مخالف ایک الگ گروپ کھڑا کر دیا۔  اب صورتِ حال یہ ہے کہ محلے میں دو گروپ بنے ہوئے ہیں اور نوبت قتل وقتال تک پہنچی ہوئی ہے، اور یہ لڑائی صرف امام صاحب کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہے۔ آپ کے سامنے مکمل صورتحال پیش کی جا رہی ہے، براہ کرم اس کا مکمل جائزہ لے کر قرآن وسنت کی  روشنی میں شرعی  راہنمائی فرمائیں۔

منتظمہ کمیٹی کا امام صاحب کی معزولی پر اصرار کرنا ان کی کسی ذاتی دشمنی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ  وہ درج ذیل وجوہات کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچی ہے۔

  1. امام صاحب (حافظ عبد الرشید) چونکہ باضابطہ قاری نہیں ہیں؛ اس لیے نماز میں قراءت اس بے توجہی اور کاہلی سے کرتے ہیں کہ نمازی اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بسا اوقات تکبیر اتنی آہستہ آواز سے کہتے ہیں کہ پہلی صف کے مقتدیوں کو بھی کچھ سنائی نہیں دیتا، رکوع سجدہ اتنا لمبا کرتے ہیں کہ ضعیف اور معذور مقتدیوں کے لیے نماز ایک آزمائش بن جاتی ہے۔ اس بات کا اطمینان محلے کے سمجھ دار اور غیر جانبدار مقتدی حضرات سے کیا جا سکتا ہے۔
  2. حافظ صاحب نمازوں کے اوقات کی پابندی نہیں کرتے ، دو چار منٹ تاخیر کرنا معمول کی بات ہے۔
  3. عموما صبح کی نماز میں اور کبھی کبھی دیگر نمازوں میں  بغیر اطلاع کے غیر حاضر ہو جاتے ہیں اور حال یہ ہے کہ نائب بھی کوئی نہیں، اور جب کبھی  نائب رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تو تنازعہ کھڑا کر دیا۔
  4. مصالحت کی کوشش کرنے والے حضرات سے بھی عدم تعاون برتا اور انہیں متہم کرنے سے بھی باز نہ آئے۔ اپنا موقف درست ثابت نہ کر سکنے کی صورت میں ثالث پر جانبداری کا الزام بھی لگایا۔ یہ بات حافظ عبد الرشید صاحب نے مفتی شاہد خان صاحب کے بارے میں کہی تھی اور ان پر یہ الزام بھی لگایا تھا  کہ آپ میری باتیں ریکارڈ کر کے دوسرے فریق تک پہنچاتے ہیں۔   بعد میں چیلنج پر بھی اپنی  بات ثابت نہیں کر سکے۔
  5. حافظ عبد الرشید  صاحب اپنی انا کی تسکین کے لیے مسجد کی ویرانی اور شرعی حدود کی پامالی پر بھی راضی ہیں، مثلا یہ بات وہ مانتے ہیں کہ مسجد کے اکثر نمازی ان سے ناراض ہیں اور  ان کی اقتداء میں نماز پڑھنے پر راضی نہیں ہیں، اور پہلے کی بنسبت ایک چوتھائی نمازی بھی مسجد میں باقی نہیں رہے، لیکن وہ پھر بھی امامت پر بضد ہیں۔
  6. حافظ صاحب محلے کے بچوں کی کلاس بھی پڑھاتے ہیں اور اس کی ذمہ داری میں بھی کوتاہی کرتے ہیں، مثلاً پورے گاؤں میں بلکہ پورے علاقے میں رواج ہے کہ حفظ کی کلاس صبح کی نماز کے فوراً بعد شروع ہوتی ہے، جبکہ ہمارے حافظ صاحب صبح کی نماز کے بعد واک پر جاتے ہیں، پھر ناشتہ کرتے ہیں اس کے بعد کلاس تشریف لاتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد سکول کا وقت ہو جاتا ہے تو چھٹی دے کر چلے جاتے ہیں۔ امام صاحب کی اسی سستی اور ذمہ داری کا احساس نہ ہونے کی وجہ سے حال یہ ہے کہ پورا سال کلاس میں تقریبا چالیس کے قریب تعداد برقرار رہنے کے باوجود سال بھر میں کوئی ایک آدھ بچہ ناظرہ پڑھ لے تو پڑھ لے اور وہ بھی اپنی مدد آپ کے تحت، ورنہ حفظ تو سالوں بعد کسی کا دیکھنے کو ملتا ہے۔ پچھلے بیس سالوں میں ہماری مسجد سے دس حافظ قرآن تیار نہیں ہوئے ، اور جو ہوئے ہیں انہیں قرآن کریم یاد نہیں، جبکہ پڑوس کی امیر معاویہ مسجد میں ہر سال بلا مبالغہ  تقریباً بیس پچیس بچے تکمیل حفظ قرآن کریم کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
  7. مذکورہ تنازعے کو حافظ صاحب نے مختلف لوگوں کے سامنے برادری کی جنگ کا رنگ دینے کی کوشش کی ہے، اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہےکہ یہ صرف ایک برادری کے کچھ  لوگوں کاامام صاحب سے ذاتی  مسئلہ ہے  اور اس برادری کے دیگر لوگ اپنی برادری کی حمایت میں حافظ صاحب کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے، حالانکہ ناراض افراد میں تینوں برادریوں کے لوگ شامل ہیں۔
  8. حافظ عبد الرشید صاحب مسجد میں اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں۔  نئے امام کی تقرری سے چڑتے ہیں، اس شرط پر راضی ہوتے ہیں کہ مجھے نہ نکالو اور نئے امام کو میرے تابع رکھو۔
  9. حافظ صاحب نے اپنی امامت بچانے کے لیے محلے کی مختلف برادریوں میں پھوٹ ڈالی اور ان کے درمیان تعصب پھیلایا، جس برادری کےکچھ  لوگ ہمنوا تھے انہیں دوسری برادری کے لوگوں کے خلاف اکسایا کہ فلاں لوگ آپ کی مسجد پر قبضہ کر رہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک مصالحتی کمیٹی صلح کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے حافظ صاحب کے حامی ایک فرد کے پاس گئی اور یہ بات کی کہ ناراض نمازیوں کی بات تو سن لیں،  ہو سکتا ہے کہ  ان کا موقف شرعا درست ہو ۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا:  "یہ اڑانگیوں اور چھتریوں (برادریوں کے نام ہیں) کی جنگ ہے،  اور میں اپنی ضد پر قائم ہوں اگر چہ دوسرے فریق کا  موقف شرعا درست ہو۔"  کیا اپنی امامت بچانے کے لیے عصبیت کو ہوا دینے  کی یہ ایک مذموم کوشش نہیں؟
  10. حافظ عبد الرشید  صاحب کا اخلاقی رویہ انتہائی کمزور ہے، مثلا مذکورہ تنازعے کے بعد اپنے مخالفین کے چھوٹے بڑے آدمی کو سلام کرنا تک چھوڑ دیا۔ حافظ صاحب زبانی تو ہر ایک کے سامنے اقرار کرتے  ہیں کہ میں ہر ایک سے بات کرنے اور معذرت کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن عملا چار ساڑھے چار سال کے عرصے میں ناراض افراد میں سے  کسی ایک فرد کے پاس بھی جا  کر معذرت  یا ماننے  منانے   کی بات نہیں کی۔
  11. جناب امان اللہ خان مرحوم ہمارے محلے کی ایک معزز اور ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ وہ مسجد کی کمیٹی کے سرپرست تھے،کمیٹی کے سر پرست ہونے کی وجہ سے ان کا مطالبہ بھی نئے خطیب کی تقرری کا تھا، اتنی سی بات کی وجہ سے ہماری مسجد کے امام حافظ عبد الرشید صاحب نے ان سے لاتعلقی رکھی،  حالانکہ وہ اس قضیے کے بعد تین ساڑھے تین سال تک زندہ رہے۔ ان کے بعد ان کی اولاد سے بھی ان کا رویہ  لا تعلقی کا ہے۔
  12. حافظ صاحب کے اخلاقی رویے سے دل برداشتہ ہو کر تقریباً ستر  اسی نمازیوں نے اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا چھوڑ دیا۔ نمازیوں کی ایک کثیر تعداد امام صاحب سے ناراض ہے اور ان کی اقتداء میں نماز پڑھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

مندرجہ بالا وجوہات کی وجہ سے منتظمہ کمیٹی امام صاحب کو امامت کا اہل نہیں سمجھتی، اب آپ بتائیے کہ کیا منتظمہ کمیٹی کا امام صاحب کو معزول کرنے کا فیصلہ درست ہے؟ اور کیا منتظمہ کمیٹی کے اس فیصلے کے باوجود امام صاحب کا زبردستی نماز پڑھانا اور امامت کا مطالبہ کرنا درست ہے؟

حاجی محمد اعظم خان (سرپرست منتظمہ کمیٹی جامع مسجد وردگ)

نفاست خان ، طفیل خان ، محمد عرفان (ارکان  منتظمہ کمیٹی)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ مفتی کی ذمہ داری سوال کے مطابق جواب دینا ہے، واقعہ کی تحقیق اس کی ذمہ داری نہیں۔ اگر سوال میں کوئی خلافِ واقعہ بات لکھی گئی ہو تو اس کی ذمہ داری سائل پر آئے گی۔ مسجد کمیٹی اور امام کا معاملہ ان مسائل میں سے ہیں جن میں کسی ایک فریق کا موقف سن کر یا پڑھ کر حتمی بات نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے ذیل میں اس مسئلے کا صرف اصولی جواب لکھا جاتا ہے۔ پھر بہتر ہے کہ علاقے کے غیر جانب دار اور مستند علماء اور معتبر شخصیات کے سامنے صورتِ حال رکھ کر معاملے کو حل کیا جائے۔

اس تمہید کے بعد مذکورہ سوال کا اصولی جواب یہ ہے کہ اگر کسی امامِ مسجد میں واقعی وہ  باتیں موجود ہوں جو سوال میں ذکر کی گئی ہیں، اور کمیٹی اسے ان وجوہات کی بنیاد پر معزول کردے تو اس کے بعد امام کے لیے مسجد کی امامت پر زبردستی قبضہ کرنا شرعاً درست نہیں؛ کیونکہ امامت، مسجد کی منتظمہ کمیٹی اور امام کے درمیان معاہدہ کی بنیاد پر ہوتی ہے، لہٰذا اگر کمیٹی معقول اور جائز وجوہات کی بنیاد پر وہ معاہدہ ختم کردے تو معاہدہ ختم ہوجائے گا۔

 

حوالہ جات
صحيح ابن خزيمة (1/ 735)
 باب الزجر عن إمامة المرء من يكره إمامته:
أخبرنا أبو طاهر، نا أبو بكر، نا عيسى بن إبراهيم، نا ابن وهب، عن ابن لهيعة وسعيد بن أبي أيوب، عن عطاء بن دينار الهذلي؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم  قال: "ثلاثة لا تقبل منهم صلاة، ولا تصعد إلى السماء، ولا تجاوز رؤوسهم: رجل أم قوما وهم له كارهون، ورجل صلى على جنازة ولم يؤمر، وامرأة دعاها زوجها من الليل فأبت عليه".
الدر المختار (1/ 559):
(ولو أم قوما وهم له كارهون، إن) الكراهة (لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة منه كره) له ذلك تحريما لحديث أبي داود «لا يقبل الله صلاة من تقدم قوما وهم له كارهون» (وإن هو أحق لا) والكراهة عليهم.
رد المحتار (1/ 559):
قوله ( والكراهة عليهم ) جزم في الحلية بأن الكراهة الأولى تحريمية للحديث وتردد في هذه.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

   21/صفر المظفر/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب