021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حج اور عمرہ کے علاوہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلق کروانا ثابت نہیں
77845سنت کا بیان (بدعات اور رسومات کا بیان)متفرّق مسائل

سوال

کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حج اور عمرہ کے علاوہ حلق کروانا ثابت ہے؟ اگر ثابت ہے تو کون سی حدیث سے ثابت ہے؟ نیز حلق کا کیا حکم ہے؟  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

روایات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف حج و عمرے کے مواقع پر ہی حلق کرنا ثابت ہے، اس کے علاوہ دیگر مواقع پرحضوراکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے سر منڈوانا  ہمیں تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملا۔

البتہ  حج اور عمرہ کے علاوہ فی نفسہ حلق کروانا شرعاً جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حج اور عمرہ کے علاوہ حلق کروانا مستند روایات سے ثابت ہے اورعلامہ طیبی رحمہ اللہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے عمل سے استدلال کرتے ہوئے لکھا  ہے کہ جس طرح بال رکھنا سنت ہے اسی طرح بالوں کو خوب اچھی طرح  کاٹنا بھی سنت  ہے، ایک تو اس لیے  کہ آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس عمل کو دیکھا اور اس پر سکوت  فرمایا،  گویا یہ آپ ﷺ کی تقریر ہے اور  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول  اور فعل کی طرح تقریرِ رسول اللہ ﷺ بھی حدیث ہی ہوتی ہے۔ نیز خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلفائے راشدین میں سے ہیں جن کی سنتوں کے اتباع کا بھی ہمیں حکم ہے۔ تاہم ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے اس  کو سنت  کہنے پر اشکال کیا ہے اور حلق کو رخصت کہا ہے۔ لیکن یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ حضور ﷺ کے وصال کے بعد بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہی معمول رہا اور کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر کبھی نکیر نہیں کی۔

نیزعلامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے لیے  بال رکھ کر اس میں تیل لگانا اور خیال کرنا مشکل ہو تو  اس کے لیے حلق مستحب ہے  اور جس کے لیے  بالوں کا خیال رکھنا مشکل نہ ہو  ان کے لیے بال رکھنا افضل ہے، اسی طرح اور بھی بعض حضرات نے حلق کے جواز اور بعض نے سنت یا مستحب ہونا نقل کیا ہے۔

حوالہ جات
زاد المعاد في هدي خير العباد (1/ 167) مؤسسة الرسالة، بيروت:
"وكان هديه في حلق الرأس تركه كله أو أخذه كله، ولم يكن يحلق بعضه ويدع بعضه، ولم يحفظ عنه حلقه إلا في نسك".
سنن أبي داود (1/ 65) مكتبة العصرية، صيدا - بيروت:
"عن علي رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من ترك موضع شعرة من جنابة لم يغسلها فعل بها كذا وكذا من النار». قال علي: فمن ثم عاديت رأسي ثلاثاً، وكان يجز شعره".
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 430) دار الفكر، بيروت:
"(عاديت رأسي) : مخافة أن لا يصل الماء إلى جميع شعري، أي: عاملت مع رأسي معاملة المعادي مع العدو، من القطع والجز، فجززته وقطعته، وروى الدارمي وأبو داود في آخر هذا الحديث: أنه كان يجز شعره، وقيل: عاديت رأسي، أي: شعري، كذا نقله السيد جمال الدين. وعن أبي عبيدة: عاديت شعري رفعته عند الغسل (فمن ثم عاديت رأسي) : أي: فعلت برأسي ما يفعل بالعدو من الاستئصال وقطع دابره ". قال الطيبي: وفيه أن المداومة على حلق الرأس سنة؛ لأنه صلى الله عليه وسلم قرّره، ولأن علياً رضي الله تعالى عنه من الخلفاء الراشدين الذين أمرنا بمتابعة سنتهم اهـ.
ولا يخفى أن فعله كرم الله وجهه إذا كان مخالفاً لسنته صلى الله عليه وسلم وبقية الخلفاء من عدم الحلق إلا بعد فراغ النسك  يكون رخصةً لا سنةً، والله تعالى أعلم. ثم رأيت ابن حجر نظر في كلام الطيبي، وذكر نظير كلامي، وأطال الكلام فيه".
شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن (3/ 814) مكتبة نزار مصطفى الباز:
"((وكان علي رضي الله عنه يجز شعره))، وفيه أن المداومة علي حلق الرأس سنة؛ لأنه صلى الله عليه وسلم قرره علي ذلك، ولأنه رضوان الله عليه من الخلفاء الراشدين المهديين الذين أمرنا بإتباع سنتهم، والعض عليها بالنواجذ".
شرح النووي على مسلم (7/ 167) دار إحياء التراث العربي - بيروت:
" قال أصحابنا: حلق الرأس جائز بكل حال، لكن إن شق عليه تعهده بالدهن والتسريح استحب حلقه، وإن لم يشق استحب تركه".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 407) دار الفكر-بيروت:
" وأما حلق رأسه ففي الوهبانية وقد قيل: حلق الرأس في كل جمعة ... يحب وبعض بالجواز يعبر. (قوله: وأما حلق رأسه إلخ) وفي الروضة للزندويستي: أن السنة في شعر الرأس إما الفرق أو الحلق. وذكر الطحاوي: أن الحلق سنة، ونسب ذلك إلى العلماء الثلاثة".
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح (ص: 525) دار الكتب العلمية بيروت:
"وأما حلق الرأس ففي التتارخانية عن الطحاوي: أنه سن عند أئمتنا الثلاثة اهـ وفي روضة الزند ويستى: السنة في شعر الرأس أما الفرق وأما الحلق اهـ يعني حلق الكل إن أراد التنظيف، أو ترك الكل ليدهنه ويرجله ويفرقه؛ لما في أبي داود والنسائي عن ابن عمران أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى صبياً حلق بعض رأسه وترك بعضه فقال صلى الله عليه وسلم: "احلقوه كله أو اتركوه كله". وفي الغرائب: يستحب حلق الشعر في كل جمعة"

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

17/صفرالمظفر 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب