021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زلفوں والے شخص کو حلق کروانے پر مجبور کرنا
77847جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

اگر کسی شخص نے زلفیں رکھی ہوں تو اس کو حلق کروانے پر مجبور کرنا کیا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زلفیں رکھنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے صحیح روایات سے ثابت ہے اور یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ عادیہ میں شامل ہے، اس لیے بغیر کسی وجہ کے کسی شخص کو زلفیں کاٹنے پر مجبور کرنا درست نہیں، البتہ زلفیں رکھنے میں دو باتوں کا اہتمام ضروری ہے:

 اول: بال کندھوں سے نیچے تک نہ جانے چاہیئں، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کندھوں سے نیچے تک بال رکھنا ثابت نہیں، نیز کندھوں سے نیچے بال جانے کی صورت میں عورتوں کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے، جبکہ عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے سے شریعت میں منع کیا گیا ہے۔

دوم: دوم یہ کہ بالوں کو صاف ستھرا رکھنے اور کنگھی کرنے کا اہتمام کیا جائے، تاکہ ان میں میل کچیل اور جوئیں نہ پڑ جائیں۔

واضح رہے کہ زلفیں سنت ہونے کے باوجود دینی علوم کے لیے اس کا اہتمام باعث ِدقّت ہے، کیونکہ دورانِ طالب علمی بالوں کی دیکھ بھال مشکل ہوتی ہے، نیز اس میں وقت بھی صرف ہوتا ہے، جس کی وجہ سے طلبہ کی پڑھائی میں حرج ہوتا ہے، ان وجوہ سے اگر کوئی استاذ اپنے طالبِ علم کو حلق کی تلقین کرے اور زلفیں رکھنے کی سنت پر وقتی طور پر عمل کرنے سے منع کر دے تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔

حوالہ جات
سنن أبي داود ت الأرنؤوط (6/ 256) دار الرسالة العالمية:
عن هشام بن عروة، عن أبيه عن عائشة، قالت: كان شعر رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فوق الوفرة، ودون الجمة.
شرح السنة للبغوي (12/ 100، رقم الحديث: 3187) المكتب الإسلامي بيروت:
أخبرنا أبو محمد الجوزجاني، أنا أبو القاسم الخزاعي، أنا الهيثم بن كليب، نا أبو عيسى الترمذي، نا هناد بن السري، نا عبد الرحمن بن أبي الزناد، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، قالت: «كنت أغتسل أنا ورسول الله صلى الله عليه وسلم من إناء واحد، وكان له شعر فوق الجمة، ودون الوفرة»
وصح عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، قال: «كان أزواج النبي صلى الله عليه وسلم يأخذن من رءوسهن حتى تكون كالوفرة» .
قال الإمام: يقال: الوفرة: الشعر إلى شحمة الأذن، والجمة: إلى المنكب، واللمة: التي ألمت بالمنكبين.
                  مختصر سنن أبي داود للمنذري (3/ 72) مكتبة للنشر والتوزيع، الرياض:
وفي حديث عائشة: "كان شعر رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم- فوق الوَفْرة ودون الجمة" وهي توضح معنى اختلاف الألفاظ.
وفي حديث عائشة ما يدل على أن الجمة أطولُ من الوفرة، وهو الذي قاله العلماء.
والوفرة: إلى شحمة الأذن. واللَّمَّة: هي التي ألمت بالمنكبين. والجُمَّة: ما سقط على المنكبين. وقال بعضهم: الوَفْرة، ثمَّ الجمة، ثمَّ اللمة.
 سنن أبي داود ت الأرنؤوط (6/ 260، رقم الحديث: 4193) دار الرسالة العالمية:
حدثنا أحمد بن حنبل، حدثنا عثمان بن عثمان -قال أحمد: كان رجلا صالحا- أخبرنا عمر بن نافع، عن أبيه عن ابن عمر، قال: نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن القزع. والقزع: أن يحلق رأس الصبي، فيترك بعض شعره .
مختصر سنن أبي داود للمنذري (3/ 72) مكتبة للنشر والتوزيع، الرياض:
قيل: الجمع بين هذه الألفاظ في شعر رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم-: أن ما يلي منها الأذن: هي التي تبلغ شحمة أذنيه، وهي التي بين أذنيه وعاتقه، وما خلفهُ منها: هو الذي يضرب منكبيه.
وقيل: بل ذلك لاختلاف الأوقات، فإذا ترك تقصيرها بلغت المنكب، وإذا قصر: كان إلى أنصاف الأذنين، وبحساب ذلك يطول ويقصر.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

17/صفرالمظفر 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب