021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نیٹ ورک مارکیٹنگ
77874اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے جدید مسائل

سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ!

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان عظام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک پاکستان کمپنی ہے جو کہ سرکاری اداروں (آئی،بی ،آر،ایس،ای،سی ،بی)وغیرہ سے رجسٹر ہے،اور گزشتہ تین سالوں سے نیٹ ورک مارکیٹنگ کے ذریعے اپنی پروڈکٹس بیچ رہی ہے،جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ اس میں آدمی کمپنی سے پروڈکٹس خرید کر فری میں کمپنی کا ایجنٹ بن جاتا ہے،پھر آگے لوگوں کو کمپنی کے پراڈکٹس بیچ کر لوگوں کو بھی کمپنی کا ایجنٹ بنواتا ہے جس پر کمپنی اس کو کمیشن دیتی ہے،پھریہ لوگ بھی آگے اور لوگوں کو کمپنی کے پروڈکٹس بیچ کر کمپنی کے ایجنٹ بناتے ہیں توکمپنی ان کو تو ان کا پورا کمیشن دیتی ہے ،لیکن ساتھ وہ پہلا شخص جس کی وجہ سے انہوں نے پروڈکٹس خریدی تھیں اس کو بھی اپنی طرف سے کمیشن دیتی ہے،کیونکہ یہ آگے جتنی بھی سیل ہورہی ہے اس سے اوپر والے شخص کی ٹیم بننا شروع ہوجاتی ہے اور اس کی ٹیم میں اب جنتے جوڑے بنتےجاتے ہیں، ہر جوڑے پر اوپر والے پہلے شخص  کوکمیشن ملتا جائے گا،صورت مسئلہ یہ ہے کہ اب کمپنی سے پروڈکٹس لینا اور کمپنی سے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ کمیشن لینا جائزہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔ سوال میں ذکرکردہ تفصیلات کے مطابق مذکورہ کاروبار چار وجوہ سے ناجائز ہے۔

۱۔ایک عقد دوسرے عقد کے ساتھ مشروط ہے جوکہ شرعاًناجائز ہے،جس کی تفصیل یہ ہےکہ مذکورہ کاروبار میں لوگوں کو چیز فروخت کروا کر کمیشن لینا اجارے (ملازمت) کے تحت آتا ہے،جسے پراڈکٹس کی خریداری کے ساتھ مشروط کر دیا جاتا ہے،لہٰذا اگر پراڈکٹس نہیں خریدی گئیں تو دوسروں کو خریداری کروا کر کمیشن کا حق بھی نہیں ہوگا،یوں ایک عقد (معاملے) میں دوسرا عقد جمع کیا جاتا ہے جو شرعاً ناجائز ہے۔

۲۔بغیر عمل کے اجرت کا ملنا یاایک ہی مرتبہ کے عمل کے نتیجے میں بار بار اجرت کا ملنا،اس کی تفصیل یہ ہے کہ  مذکورہ کاروبار میں جب کوئی شخص پہلا ممبر بناتا ہے اور وہ ممبر مزید آگے ممبرز بناتا ہے تو ان آگے والے ممبران کی لین دین میں اس شخص کا کوئی ایسا عمل نہیں ہوتا جس کا تعلق براہ راست کمپنی اور خریدار کے لین دین سے ہو، ایسی صورت میں یہ شخص جو اجرت لیتا ہے وہ بغیر کسی عمل کے ہوتی ہے،یا ابتدا میں بنائے گئے ممبر کے عمل کے نتیجے میں بار بار اجرت ملتی ہے اور ان دونوں صورتوں میں اجرت جائز نہیں ہے۔

۳۔قمار یعنی جوے کا ہونا،جس کی تفصیل یہ ہے کہ مذکورہ کاروبار میں اکثر شامل ہونے والے لوگ نیٹ ورک بنانے کے مقصد سے شامل ہوتے ہیں اور پراڈکٹ خریدنے سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممبران بنائیں تو ان کا کمیشن حاصل ہو، چونکہ معاملات میں مقاصد کا اعتبار ہوتا ہے لہذا یہ لوگ رقم پراڈکٹ خریدنے کے لیے نہیں بلکہ ایک ایسے کام کے لیے لگاتے ہیں جس کا ہونا یا نہ ہونا ، دونوں ممکن ہوتے ہیں، اگر کام ہو گیا (یعنی ممبر بن گئے) تو نفع ہو جائے گا اور ممبر نہ بن سکے تو یہ رقم بھی جائے گی، یہ شرعاً قمار (جوے) کے تحت آتا ہے،جوکہ ناجائز ہے۔

۴۔حق مجرد کی بیع ہونا،جس کی تفصیل یہ ہےکہ مذکورہ کاروبار میں پراڈکٹس کی خریداری کا مقصد پراڈکٹس نہیں ہوتیں بلکہ نیٹ ورکنگ کا حق حاصل کرنا ہوتا ہے، لہذا یہ نیٹ ورکنگ کے حق کی بیع ہوتی ہے، نیٹ ورکنگ کا عمل اجارہ کے تحت آتا ہے ، اس کی بیع حق اجارہ کی بیع ہے جو ایک  حق مجرد ہے اور حق مجرد کی بیع جائز نہیں ہوتی۔

جواب کا خلاصہ یہ ہوا کہ نیٹ ورک مارکیٹنگ یا ملٹی لیول مارکیٹنگ کے نام سے رائج کاروبار کی مختلف اسکیمیں یا کسی اور نام سے مذکورہ کاروبار  کی طرح کی رائج اسکیمیں مذکورہ خرابیوں کی وجہ سے ناجائز ہے،لہٰذا اس طرح کی کاروباری اسکیمیں شروع کرنا یا اس کاحصہ بننا جائز نہیں ہے۔

حوالہ جات
الجوهرة النيرة، (1/203 ):
(وكذلك لو باع عبدا على أن يستخدمه البائع شهرا، أو دارا على أن يسكنها شهرا، أو على أن يقرضه المشتري دراهم، أو على أن يهدي له هدية) فالبيع فاسد۔۔۔ وقد نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن صفقتين في صفقة ونهى عن بيع وشرط عن شرطين في بيع وعن بيع وسلف وعن ربح ما لم يضمن وعن بيع ما لم يقبض وعن بيع ما ليس عند الإنسان ، أما بيع وشرط فهو أن يبيع بشرط فيه منفعة لأحد المتعاقدين وأما نهيه عن شرطين في بيع فهو أن يبيع عبدا بألف إلى سنة، أو بألف وخمسمائة إلى سنتين ولم يثبت العقد على أحدهما، أو يقول: على إن أعطيتني الثمن حالا فبألف، وإن أخرته إلى شهر فبألفين، أو أبيعك بقفيز حنطة، أو بقفيزي شعير فهذا لا يجوز. لأن الثمن مجهول عند العقد ولا يدري البائع أي الثمنين يلزم المشتري، وأما صفقتان في صفقة أن يقول: أبيعك هذا العبد بألف على أن تبيعني هذا الفرس بألف وقيل هو أن يبيع ثوبا بشرط الخياطة، أو حنطة بشرط الحمل إلى منزله فقد جعل المشتري الثمن بدلا للعين والعمل فما
حاذى العين يكون بيعا وما حاذى العمل يكون إجارة فقد جمع صفقتين في صفقة۔۔۔.
المبسوط للسرخسي،( 15/102):
وإن اشترى ثوبا على أن يخيطه البائع بعشرة فهو فاسد؛ لأنه بيع شرط فيه إجارة؛ فإنه إن كان بعض البدل بمقابلة الخياطة فهي إجارة مشروطة في بيع، وإن لم يكن بمقابلتها شيء من البدل فهي إعانة مشروطة في البيع، وذلك مفسد للعقد۔۔۔.
المبسوط للسرخسي( 16/41):
وإن سلم غلاما إلى معلم ليعلمه عملا وشرط عليه أن يحذقه فهذا فاسد؛ لأن التحذيق مجهول إذ ليس لذلك غاية معلومة وهذه جهالة تفضي إلى المنازعة بينهما، وكذلك لو شرط في ذلك أشهرا مسماة؛ لأنه يلتزم إيفاء ما لا يقدر عليه فالتحذيق ليس في وسع المعلم بل ذلك باعتبار شيء في خلقة المتعلم، ثم فيما سمي من المدة لا يدري أنه هل يقدر على أن يحذقه كما شرط أم لا والتزام تسليم ما لا يقدر عليه بعقد المعاوضة لا يجوز.
شرح القواعد الفقهية،( 1/55، دار القلم):
العبرة في العقود للمقاصد والمعاني لا للألفاظ والمباني۔۔۔ والمراد بالمقاصد والمعاني: ما يشمل المقاصد التي تعينها القرائن اللفظية التي توجد في عقد فتكسبه حكم عقد آخر كما سيأتي قريبا في انعقاد الكفالة بلفظ الحوالة، وانعقاد الحوالة بلفظ الكفالة، إذا اشترط فيها براءة المديون عن المطالبة، أو عدم براءته.
وما يشمل المقاصد العرفية المرادة للناس في اصطلاح تخاطبهم، فإنها معتبرة في تعيين جهة العقود، فقد صرح الفقهاء بأنه يحمل كلام كل إنسان على لغته وعرفه وإن خالفت لغة الشرع وعرفه: (ر: رد المحتار، من الوقف عند الكلام على قولهم: وشرط الواقف كنص الشارع).

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

22/صفر1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب