021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین طلاق کا حکم
77914طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

سلام کے بعد عرض ہے کہ میری بھابھی نے میرے خلاف بات کی ،میں نے اپنی بیوی کو کمرےمیں بلایا اور سمجھانے کےلے کہاکہ تمہاری بہن میرے خلاف باتیں کر رہی ہے،  جبکہ میں نے بھابھی کو کوئی  بات تک نہیں کی۔میری وصیت ہے کہ جب میں مرجاؤں تو میری چارپائی کے نزدیک تمہاری دونوں بہنیں جو کہ میری بھابھیاں بھی ہیں، وہ نہ آئیں، اور تم میری بیوی ہوکر میری بات نہیں مانتی، اپنی بہنوں کی سائیڈ لیتی ہو،جبکہ خاوند تمہارا میں ہوں ،تم اپنی بہنوں کے کہنے پر اپنا گھر خراب کررہی ہو، میری بات جاکر تم اپنی بہنوں کو بتاتی ہو،وہ کہتی ہیں تم ان کی باتوں پر عمل کرکے مجھے رد کردیتی ہو۔ میری بیوی نے کہا:"پھر تو تمہاری بہن بھی تمہیں بھڑکاتی ہوگی ،"

میں نے کہاکہ یہ اس گھر کا معاملہ ہے ،میری بہن تو اپنے گھر میں ہے ،تم سب بات بات پر میری بہن کو کیوں شامل کرتی ہو؟۔وہ تو تمہیں کچھ نہیں کہتی ،میری بیوی کہنے لگی: تو پھر وہ فون پر بھڑکاتی ہوگی۔میں نے کہا:تم بھی میری بہن کی جوتی اپنے منہ میں نہ ڈالو،میری بیوی نے کہا:تم بھی میری بہنوں کا نام نہ لو ،جس پر میں نے اپنی جوتی اس کی طرف پھینکی ،میری بیوی نے کہا: مارد مجھے ،مارڈالو،یہ سن کر میرا بھتیجا کہنے لگا ،اوئے تمہیں تمیز نہیں ہے؟میں آؤں تمیز سکھاؤں؟جس پر میں نے کہا:آجاؤ،میں تمہیں بتاتا ہوں ،یہ سن کر میری بیوی کی ایک اور بہن آگئی، جو اوپر منزل پر رہتی ہے اور وہ آتے ہی مجھے برا بھلا کہنے لگیں،حتی کہ دونوں بہنیں مجھے لعنت کرنے لگیں،لعنت بھیجنے لگیں۔میں نے جواب میں کہا: تم دونوں  بہنیں میر گھر بربادکرنے پر تلی ہو،تم بھی برباد ہوں گی ،وہ پھر بھی خاموش نہیں ہوئیں،پھر میری بیوی نے مجھے کہا: اب تمہیں  پتا چلا جب تمہاری بے عزتی ہورہی ہے،اب تمہارے ساتھ اچھا ہوا ہے۔ پھر میں نے اپنی بیوی کو کہا : اگر تم کہتی ہو تو میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتاہوں،میری بیوی خاموش رہی ،اس نے کوئی جواب نہیں دیا ،میں بھی خاموش ہوگیا۔تھوڑی دیر بعد میری بیوی نے کہا : تم نے تو مجھے طلاق دیدی ہے۔میں اس گھر سے نہیں جاؤں گی۔میری خاموشی  پر پھر وہ کہنے لگی :اب پچھتارہے ہو؟ میں نے کہا : نہیں ،میں کیوں پچھتاؤں،میں نے کہا اگر تم کہتی ہوتو ،پھر میں موٹرسائیکل لے کر باہر چلاگیا۔اب اس سے طلاق ہوگئی ہے یانہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شوہر کے کہے گئے جملے" پھر میں نے اپنی بیوی کو کہا : اگر تم کہتی ہو تو میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتاہوں،" کے دومطلب ہوسکتے ہیں:

1۔یہ شرط جزاء کی صورت ہو،یعنی جب بیوی کہے گی تو طلاق ہو۔اور جب تک وہ نہ کہے طلاق نہ ہو۔

2۔ بیوی کی اتنی باتوں کے بعد شوہر نے تنگ آکر اس کے کلام پر یہ کہا " جب تم اس قدر باتیں کرکے خوش نہیں ہوتو پھرمیں بھی تمہیں طلاق دیتاہوں" صورت سوال کے پورے سیاق وسباق کے مطابق یہ مطلب زیادہ واضح بنتاہے۔

 البتہ شوہر سے رابطہ کرنے پر انہوں نے جو وضاحت کی ہے وہ پہلی صورت کےمطابق ہے کہ میں نے طلاق عورت کے کہنے پر معلق(موقوف) کی ہے،لہذا اگر واقعتا بات یہی ہے تو اس صورت میں شرط کے ساتھ معلق پہلی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے،بقیہ دوطلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔لہذا عدت کے اندررجوع کرسکتاہے، آمنے سامنے یا فون پر زبانی طور پررجوع کرے کہ میں آپ سے رجوع کرتاہوں یا عملی طریقےسے میاں بیوی والا تعلق قائم کرکے رجوع کرے۔لیکن اب مزید فقط ایک طلاق کا حق باقی ہے،اگر  ایک طلاق دیدی تو پھر بیوی مغلظہ ہوجائے گی۔اگر رجوع کیے بغیر عدت گزر گئی تو بیوی نکاح سے علیحدہ ہوجائے گی۔ اب دوبارہ ساتھ رہنے کےلیے فقط رجوع کرنا کافی نہیں ہوگا،بلکہ دونوں کی رضامندی سے نیا نکاح ،نئے مہر کے ساتھ کرنا پڑے گا،اور پھر بھی فقط ایک طلاق کا اختیار باقی رہے گا۔

حوالہ جات
 الفتاوى الهندية(1/488):
وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته إن دخلت الدار فأنت طالق
الفتاوى الهندية (1/ 374):
وإن علق الطلاق بالشرط فإن ذكره بغير حرف العطف إن كان الشرط مقدما فقال إن دخلت الدار فأنت طالق طالق طالق وهي غير مدخولة.فالأول بالشرط والثاني يقع للحال والثالث لغو ثم إذا تزوجها ودخلت الدار ينزل المعلق وإن دخلت بعد البينونة قبل التزوج حنث ولا يقع شيء وإن كانت مدخولة فالأول معلق بالشرط والثاني والثالث يقعان في الحال.
 
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 137):
ولو كرر لفظ الطلاق فالأمر لا يخلو إما أن كرر بدون حرف العطف وإما أن يكون بحرف العطف، وكل ذلك لا يخلو إما أن نجز أو علق.
فإن كرر بغير حرف العطف ونجز
وإن علق بشرط فإن قدم الشرط بأن قال: إن دخلت الدار فأنت طالق طالق طالق...وإن
كانت مدخولا بها؛ فالأول يتعلق بالشرط لما ذكرنا، والثاني والثالث ينزلان للحال؛ لأن كل واحد منهما إيقاع صحيح لمصادفته محله

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

24/صفر1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب