021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نباہ نہ ہونے کی صورت میں طلاق کے مطالبے کا حکم
77894طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

عورت کے سسرال والوں کا رویہ اس کے ساتھ ناقابل برداشت حد تک خراب ہے،اس کی نندیں اس کو مارتی پیٹتی ہیں،اس کی کردار کشی کا اوراسے تکلیف پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں،اس کا شوہر بھی اسے نان نفقہ کے حوالے سے پریشان کرتاہے اور طعنے دیتاہے کہ تمہارے گھر والے تمہیں دو وقت کا کھانا نہیں کھلاسکتے،اس لئے یہاں رکھا ہوا ہے۔

شوہر اور نندوں کے اس رویے کی وجہ سے عورت ڈپریشن کا شکار ہوگئی ہے،جس کے نتیجے میں اسے رات بھر نیند نہیں آتی،سر سے پیر تک جسم کا بایاں حصہ اکڑا ہوا ہے،دل کی دھڑکن تیز ہے وغیرہ۔

جب ایسے حالات ہوں کہ شوہر اور سسرال والے اسے گھر سے نکالنے کی منصوبہ بندی کریں توکیا بیوی کو طلاق لے لینی چاہیے یا اس بات کو مدنظر رکھ کر کہ طلاق کی وجہ سے بیوی کے خاندان کی بے عزتی ہوگی اس رویے کو برداشت کرتے رہنا چاہیے؟

سب کہتے ہیں کہ شوہر کا گھر مت چھوڑنا،وہ لوگ جیسا چاہیں سلوک کریں،جب تک گھر سے دھکے دے کر نہ نکالیں تب تک وہی رہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرچہ طلاق اللہ تعالی کے نزدیک حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے،لیکن بوقت ضرورت شریعت نے اس کی اجازت دی ہے،لہذااگر میاں بیوی کے درمیان نباہ نہ ہورہا ہو اور وہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حدود کا لحاظ نہ رکھ پارہے ہوں تو ایسی صورت میں شریعت نے میاں بیوی کو ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے کی اجازت دی ہے،جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی کا واقعہ مذکور ہے کہ وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی یا رسول اللہ مجھے ثابت بن قیس پر ان کے اخلاق اور دینداری کے حوالے سے کوئی اعتراض نہیں ہے،لیکن میں اسلام کی حالت میں(شوہر کے حقوق کی پاسداری نہ ہونے کی وجہ سے ہونے والی) ناشکری کو ناپسند کرتی ہوں تو حضور نے ان سے فرمایا :" کیا تم نے ان سے حق مہر میں جو باغ لیا تھا وہ انہیں واپس کرنے کے لئے تیار ہو"؟ وہ بولی جی ہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت سے فرمایا: " باغ واپس لے کر اسے ایک طلاق دے دو"۔

لہذا لوگوں کی یہ بات درست نہیں کہ جب تک شوہر کے گھر سے دھکے دے کر نہ نکالا جائے تب تک عورت طلاق کا مطالبہ نہ کرے،بلکہ نباہ نہ ہونے کی صورت میں پہلے تو دونوں خاندانوں کے بزرگوں کے ذریعے صلح صفائی اور ازدواجی رشتے کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے،لیکن اگر ہر ممکن کوشش کے باوجود میاں بیوی کے درمیان نباہ کی کوئی صورت نہ بن رہی ہو تو بیوی طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے۔

پھر اگر نباہ نہ ہونے میں قصور شوہر کا بھی ہو تو اس کے لئے طلاق کے عوض مہر واپس لینا جائز نہیں،جبکہ صرف بیوی کے قصور وار ہونے کی صورت میں شوہر طلاق کے بدلے مہر واپس لے سکتا ہے۔

حوالہ جات
"سنن أبي داود " (3/ 505):
عن ابن عمر، عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: "أبغض الحلال إلى الله عز وجل الطلاق".
قال الملا علی القاری رحمہ اللہ فی شرحہ:" وإنما أبيح للحاجة، والحاجة هي الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله، فشرعه رحمة منه - سبحانه - فبين الحكمين تدافع، والأصح حظره إلا لحاجة للأدلة المذكورة، ويحمل لفظ المباح على ما أبيح في بعض الأوقات، أعني أوقات تحقق الحاجة المبيحة، وهو ظاهر في رواية لأبي داود " «ما أحل الله شيئا أبغض إليه من الطلاق» "، وإن الفعل لا عموم له في الزمان غير أن الحاجة لا تقتصر على الكبر والريبة، فمن الحاجة المبيحة أن يلقي إليه عدم اشتهائها، بحيث يعجز أو يتضرر بإكراهه نفسه على جماعه".
"صحيح البخاري "(7/ 47):
 عن ابن عباس، أن امرأة ثابت بن قيس أتت النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، ثابت بن قيس، ما أعتب عليه في خلق ولا دين، ولكني أكره الكفر في الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أتردين عليه حديقته؟» قالت: نعم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اقبل الحديقة وطلقها تطليقة».
قال الملا علی القاری رحمہ اللہ فی شرحہ: "(ولكني أكره الكفر في الإسلام) : عرضت عما في نفسها من كراهة الصحبة وطلب الخلاص بقولها ولكني أكره الكفر أي كفران النعمة أو بمعنى العصيان، تعني ليس بيني وبينه محبة وأكرهه طبعا، فأخاف على نفسي في الإسلام ما ينافي حكمه من بغض ونشوز وغير ذلك مما يتوقع من الشابة المبغضة لزوجها، فسمت ما ينافي مقتضى الإسلام باسم ما ينافيه نفسه".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

25/صفر1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب