021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں  میراث   کی  تقسیم
77879میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

وراثت کی تقسیم کی تفصیل 3 بیٹےایک بیٹی اورایک ان کی والدہ اورایک بیٹی پہلےگھرسے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں چونکہ والدزندہ ہے،اس لیےمیراث کی تقسیم تونہیں ہوسکتی،خدانخواستہ والدصاحب کاانتقال ہوجائےتوپھرسوال کیاجاسکتاہے،ہاں اگروالداپنی زندگی میں اپنی اولاد میں کچھ دینا چاہتاہےتووہ میراث نہیں ہوتی ،بلکہ عطیہ اورہبہ ہوتاہے،اس کاشرعاحکم یہ ہےکہ اصولی طورپر تمام اولاد(چاہےوہ کسی بھی بیوی سےہو)میں برابری کرنی چاہیے،اورکوشش کرنی چاہیےکےبیٹےبیٹیوں میں برابر حصہ تقسیم کریں،لیکن اگرمیراث کےمطابق لڑکےکودوگنادےیاکسی معقول وجہ مثلادین داری خدمتگزاری وغیرہ کی وجہ سےکسی کوزیادہ اورکسی کوکم دےتوبھی شرعاگنجائش ہے۔

حوالہ جات
  " خلاصۃ الفتاوی "  4/  40 :وفی الفتاوی:رجل لہ ابن وبنت أرادأن یھب لھماشیئافالأفضل ان یجعل للذکرمثل حظ الانثیین عندمحمدرحمہ اللہ تعالی وعندابی یوسف رحمہ اللہ تعالی بینھماسواء ھوالمختارلورودالآثار،ولووھب جمیع مالہ لابنہ جازفی القضاء وھوآثم ثم نص عن محمد رحمہ اللہ تعالی ھکذافی العیون ،ولوأعطی بعض ولدہ شیئادون البعض لزیادۃ رشدہ لاباٗس بہ وان کاناسواء لاینبغی أن یفضل ،ولوکان ولدہ فاسقافأراد أن یصرف مالہ الی وجوہ الخیرویحرمہ عن المیراث ھذاخیرمن ترکہ لان فیہ اعانۃ علی المعصیۃ ولوکان ولدہ فاسقالایعطی لہ أکثرمن قوتہ۔
"الفتاوى الهندية "35 /  24:ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا ، وروي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين ، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار ، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار ، كذا في الظهيرية ۔

محمدبن عبدالرحیم

دارلافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

26/صفر 1444 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب