021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بچپن میں باپ کے کرائے ہوئے نکاح پر خیار بلوغ
77935نکاح کا بیانولی اور کفاء ت ) برابری (کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان عظام  اس مسئلے کے بارے میں

میری بہن بی بی صفیہ جس کی تاریخ پیدائش 2001ہے اور 2006/7میں والد کی موجودگی میں اور کم عمری میں نکاح ہوا تھا۔جب وہ بالغ ہوگئی تو مسماۃ نےفورا اس رشتے سے انکار کردیا۔اور اس پر اپنے گھر والوں (والدہ،اور دو بھائیوں اور ایک بہن) کو گواہ بنایا۔اور اپنے اس فیصلےکے مطابق، فریق ثانی کو براہ راست اس رشتے سے انکار کردیا،لیکن فریق ثانی نے اس کے اس فیصلے کو یکسر مسترد کردیا تھا اور ہر جگہ یہ مشہور کردیا تھا کہ مسماۃ میری بیوی ہے۔آخر بی بی صفیہ عدالت جانے پرمجبور ہوئی  ،کچھ عرصہ بعد عدالت نے فریق ثانی کے حاضر نہ ہونے کی وجہ سے یک طرفہ  فیصلہ بی بی صفیہ کے حق میں سنادیا جو کہ اس خط کے ساتھ مفصل منسلک ہے ،اب مذکورہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں یہ فسخ نکاح درست ہے یا نہیں ؟شریعت کا اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟تفصیلی جواب درکار ہے۔(والد صاحب کا 2009 میں انتقال ہوا ہے)

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ نکاح والدنے کیاہے،نکاح برابر کے خاندان میں ہوا ہے،ڈاکومنٹ میں مہر کی مقدار ایک لاکھ مذکور ہے۔نیز لڑکا عمر میں بہت زیادہ بڑا یا بیمار  یا نشہ کرنے والا بھی نہیں ہے۔ فقط ان دوخاندانوں میں رقم کا تنازعہ ہے جس کی بناء پر رشتہ دینے سے انکار کردیا گیاہے،اور کورٹ سے فسخ نکاح کی ڈگری حاصل کی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر بچی کا نکاح خود اس کے والد نے کفو میں  مہر مثل کے ساتھ کیا ہو،اس میں اس کا ذاتی مفاد اور لالچ شامل نہ ہوتو بلوغت کے بعد لڑکی کو  نکاح فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

 کفو کا مطلب یہ ہے کہ لڑکا،نسب ،دین داری ،پیشہ ،مال داری ،اور حریت میں عورت سے بہتر یا اس کے ہم پلہ ہو،

اس سے کم نہ ہو۔

 مہر مثل سے  مراد لڑکی کے ددھیالی خاندان کی اس جیسی عورتوں کا مہر ہے ، یعنی مہر مثل لڑکی کی بہنوں ‘ پھوپیوں

وغیرہ کے مہر کی مقدار کے برابرہوتا ہے ، خاندان کی اس جیسی عورتوں کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورت عقد کے وقت عمر،جمال، مال،شہر، زمانہ، عقل،دینداری، پاکدامنی،ادب، خوش اخلاقی میں لڑکی کے برابر ہو اور دونوں کنواری ہونے یا ثیبہ ہونے ،نیز اولاد والی ہونے یا نہ ہونے میں برابر ہوں ۔ 

صورت مسئولہ میں بھی سائل کی فراہم کردہ  معلومات کےمطابق لڑکی کو خیار بلوغ کے ذریعہ اس نکاح سے انکار کی گنجائش نہیں ہے،اور نہ کورٹ کے فیصلے سے ان کا نکاح منسوخ ہوا ہے،اس لیے خاندان کے بزرگ یا جرگہ کے لوگوں کےذریعہ رقم کا تنازعہ حل کیا جائے،یا لڑکے سے کسی طریقے سے طلاق لے لی جائے۔

حوالہ جات
درر الحكام شرح غرر الأحكام (1/ 336):
(للولي إنكاح الصغير والصغيرة، ولو) كانت الصغيرة (ثيبا) خلافا للشافعي، وقد مر (بغبن فاحش) وهو ما لا يتغابن الناس فيه بأن زوج بنته الصغيرة ونقص من مهرها نقصانا فاحشا (أو لغير كفء) بإذن زوج بنته الصغيرة عبدا أو زوج ابنه الصغير أمة (إن كان) أي الولي (أبا أو جدا) أي أب الأب خلافا لهما قالوا الخلاف فيما إذا كان الأب صاحيا، ولو كان سكران لا يصح اتفاقا، وكذا لو عرف منه سوء الاختيار لطمعه أو سفهه لا يصح اتفاقا، لهما أن ولايتهما نظرية فإذا تضمن ضررا لا يجوز وله أن شفقتهما وافرة فالظاهر أن هذا الضرر يضمحل في مقابلة فوائد أخر من كون الزوج حسن الخلق والألفة وواسع النفقة والعفة، والظاهر أنهما قصداها بالعقد فلا ضرر (وإلا) ، وإن لم يكن الولي أبا أو جدا (فلا) أي لا يصح إنكاحه بغبن فاحش أو لغير كفء اتفاقا لفقد علة الصحة في الغير (ففي عقدهما) أي عقد الأب والجد (إذا كان) ذلك العقد (بمهر المثل أو كفء لزم) أي العقد ولا خيار لواحد منهما بعد البلوغ

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

30/صفر1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب