021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تقسیم ہند کے بعد حکومت پاکستان کی طرف سے عطا کردہ زمینوں کا حکم
77937میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیا  فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلے میں :

 میر ا بھائی مرحوم  عبدالغفور 1943  میں انڈیا میں پیدا ہوئے  اور   ان کا  انتقال 2007  میں  ہو ا ، میرے والد  مرحوم  نور محمد کا انتقال 1983  میں ہوا، ان کے کل چار بیٹے اور ایک بیٹی  تھی،  ان میں( 1)  مرحوم عبدالغفور (2) عبدالسلام (3)  بہن صغران  (4)  رفیق احمد (5)  محمد اقبال ۔ عبدالغفور کے علاوہ  باقی    سب بہن بھائی   پاکستان میں پیدا ہوئے ،  میرے والد نور محمد نے   بھائی  عبدالغفور  کے  نام سے پاکستان میں ایک کلیم داخل کیا  جوکہ پراپرٹی  نمبر 13-236  کے نام سے منظور  ہوگیا، جب بھائی  عبدالغفور پاکستا ن آئے، ان کی عمر چار سال تھی   اس وقت تک ہم پیدا  نہیں ہوئے تھے۔ جب سے پراپرٹی13-236 کلیم میں آئی ہے اس وقت سے لیکر اب2022 تک   ہم  تین  بھائیوں کے  استعمال میں  ہے ، اس پورے دورانئے کو   تقریبا 70 سال ہونے والے ہیں ،اس کی تعمیر، ریپیئرنگ ، بجلی ، گیس  اور دیگر ٹیکس وغیرہ ہم دیتے ہیں  اور ہم ہی کرتے ہیں ، ہمارے والد مرحوم نور محمد ،  بھائی عبد الغفور   اور  ہماری والدہ مرحومہ کئی  بار کہہ چکے  تھے   یہ پراپرٹی سب  کی ملکیت  ہے اور سب کا حصہ  ہے  اور  یہ باتیں  مرحوم  بھائی  عبدالغفور  بھی اپنے بچوں کو بتا چکے تھے  کہ اس پراپرٹی 13-236میں سب کا حصہ  ہے ، اب  ہمارے بھتیجے  یہ دعوی کرتے ہیں  کہ  یہ پراپرٹی  ہمارے والد مرحوم کی تھی ، آیا  یہ پراپرٹی شرعی طور  پر ان کی ہے    یا سب بہن بھائیوں کی ہے۔

 برائے مہربانی آپ قرآن وحدیث کی روشنی میں فتوی صادر فرمائیں ، آپ کی بڑی مہربانی ہوگی!

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 تقسیم  ہند  کے بعد   حکومت  پاکستان  نے  جو  زمینیں  مہاجرین  کے  درمیان  تقسیم کی  تھیں  ، اس کا معیار   حکومت  نے ان جائیدادوں  کو قراد دیا تھا  جو  مہاجرین   ہندوستان میں چھوڑ کر آئے تھے ،   جو  شخص   جتنی  زمینیں  اور کاروبار  وغیرہ چھوڑ کر    ہجرت  کرکے   پاکستان  آیا  تھا ، اسے   یہاں کی حکومت نے   ایک  طے شدہ تناسب  سے   زمینیں  ہدیہ  کی تھیں۔   صورت مسؤلہ میں  پاکستان کی طرف  ہجرت  کرتے وقت  آپ  کے بھائی  مرحوم  عبدالغفور  کی عمر  چار سال  تھی ،  اس  عمر  میں  بچے  کی ملکیت  میں کسی زمین  کا ہونا عادۃ  بعید امر   ہے ، اس  لئے اگر  قرائن  سے  یہی معلوم  ہوتا  ہے کہ ہندوستان میں صرف  آپ  کے والد کی زمین تھی  مگر  اس کے مقابل زمین کا  کلیم کرتے  ہوئے  والد مرحوم  نے  صرف  بیٹے کا نام لکھ دیا  یا اپنے نام کے ساتھ  بیٹے کا نام  بھی لکھ دیا جیسے کہ  مرحوم عبدالغفور  کا جائیداد مشترک ہونے کا اقرار اس  بات کی تائید کرتا ہے تو ایسی صورت میں  یہاں کی زمین بھی  ساری والد کی ہوگی  اور دیگر   لوگ بشمول    مرحوم   عبدالغفور  والد کی وفات  کے بعد میراث کے حصوں کے مطابق  حق دار ہوں گے۔

   یہ  بھی ممکن  ہے کہ ہندوستان میں  کوئی زمین نہیں  تھی،  والد  نے غلط بیانی  کرکے  بیٹے  کے نام کلیم جمع کراکر یہ زمین حاصل کی تھی  تو ایسی صورت  میں  بھی اصولا(قضاء ) اس زمین پر صرف آپ کے والد کی ملکیت ثابت ہوگئی   تھی  مگر اس ملکیت  کے خبیث ہونے کی وجہ سے  ان کیلئے اس زمین  کو اپنے ذاتی استعمال  میں  لانا  جائز  نہ تھا ۔

 لہذا اگر  یہ امکان ثابت ہوجائے تو ایسے  میں   یہ  زمین اگرچہ  اس  وقت  آپ تمام ورثاء  کی ملکیت  ہے     لیکن  اس   کے شرعی  حصص  تمام    ورثاء  کے درمیان  تقسیم کرنے کے بعد  ہر وارث   پر لازم ہے  کہ وہ اپنے  حصے میں آنے والی زمین  حکومت کو واپس کردے  یا   اپنے حصے کے بقدر زمین  کی  موجودہ قیمت  کے اعتبار سے  رقم  قومی خزانے میں جمع کرائے تب   یہ زمین آپ  کیلئے حلال ہوگی۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 99)
مطلب فيمن ورث مالا حراما
(قوله إلا في حق الوارث إلخ) أي فإنه إذا علم أن كسب مورثه حرام يحل له، لكن إذا علم المالك بعينه فلا شك في حرمته ووجوب رده عليه، وهذا معنى قوله وقيده في الظهيرية إلخ، وفي منية المفتي: مات رجل ويعلم الوارث أن أباه كان يكسب من حيث لا يحل ولكن لا يعلم الطلب بعينه ليرد عليه حل له الإرث والأفضل أن يتورع ويتصدق بنية خصماء أبيه. اهـ وكذا لا يحل إذا علم عين الغصب مثلا وإن لم يعلم مالكه، لما في البزازية أخذه مورثه رشوة أو ظلما، إن علم ذلك بعينه لا يحل له أخذه، وإلا فله أخذه حكما أما في الديانة فيتصدق به بنية إرضاء الخصماء اهـ.
مجلة الأحكام العدلية (ص: 337)
المادة (1674) لا يسقط الحق بتقادم الزمن بناء عليه إذا أقر واعترف المدعى عليه صراحة في حضور القاضي بأن للمدعي عنده حقا في الحال في دعوى وجد فيها مرور الزمن بالوجه الذي ادعاه المدعي فلا يعتبر مرور الزمن ويحكم وبموجب إقرار المدعى عليه وأما إذا لم يقر المدعى عليه في حضور القاضي وادعى المدعي بكونه أقر في محل آخر فكما لا تسمع دعواه الأصلية كذلك لا تسمع دعوى الإقرار. ولكن الإقرار الذي ادعي أنه كان قد ربط بسند حاو لخط المدعى عليه المعروف سابقا أو ختمه ولم يوجد مرور الزمن من تاريخ السند إلى وقت الدعوى تسمع دعوى الإقرار على هذه الصورة.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (4/ 319)
لا يسقط الحق بتقادم الزمن ولو تقادم الزمن أحقابا كثيرة، وأن عدم استماع الدعوى بمرور الزمن المبين آنفا مبني على الأمر السلطاني بسبب امتناع الحكام عن سماع الدعوى خوف وقوع التزوير لقطع الحيل والتزوير والأطماع الفاسدة الفاشية بين الناس انظر شرح عنوان الباب الثاني.
فلذلك لو أقام أحد الدعوى بمطلوبه الذي هو على آخر بعد مرور خمس عشرة سنة ورد القاضي الدعوى بسبب مرور الزمن فيبقى المدين مدينا ديانة ولا يخلص من حق غرمائه ما لم يؤد دينه أو يرضي مدينه.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (4/ 295)
 إن مرور الزمن لا يثبت حقا: يعني أن العقود كالبيع والإجارة مع كونها مثبتة وموجدة لكل واحد من العاقدين منفعة ومضرة إلا أن مرور الزمن لا يثبت حقا للطرف الذي يريد الاستفادة منه. فلذلك إذا رد القاضي دعوى دائن بسبب وقوع مرور الزمن فيها يبقى المدعى عليه مدينا للمدعي ويكون قد هضم حق المدعي.

محمد نصیر

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

٤،ربیع الاول ،١٤٤٤ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نصیر ولد عبد الرؤوف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب