021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نقل کرنایا اس کے مواقع فراہم کرنا
77960جائز و ناجائزامور کا بیانرشوت کا بیان

سوال

پبلک یا نجی اسکولوں میں طلبہ سے فی کس 5 ہزار روپیہ جمع کراتے ہیں۔پھر امتحانی عملے پر یہ رقم خرچ کی جاتی ہے۔عملہ متعلقہ طلبہ کو فری نقل،یا اس کے مواقع فراہم کرتے ہیں،خرچہ کی صورت یہ ہے ان کو کھانے پینے کی اشیاء،آمد ورفت کے لیے اچھی گاڑی اور سیر وتفریح کراتے ہیں۔جب نقل ہوتو نمبرز بھی اچھے آتے ہیں۔اس بناء پر لوگ ان اسکولوں میں بچے داخل کراتے ہیں۔اور مالکان اس سے اچھے پیسے کماتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ کھلم کھلا رشوت کا کاروبار نہیں؟کیا یہ قوم یا علاقے سے غداری نہیں؟کیا پاکستان کی غداری نہیں؟کیا ایسی سند پرکاروبارکرنا حرام نہیں؟کیا یہ رقم مالکان کے لیے حرام نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

امتحان میں نقل کرنا یا نقل کے مواقع فراہم کرناخیانت ،دھوکہ دہی ، جھوٹ اورقانون کی خلاف ورزی جیسے کئی سنگین گناہوں کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں، نیز اس قسم کے امتحانات کے ذریعہ  نا اہل لوگ اپنی لیاقت اور اہلیت کا دھوکہ دے کر کئی محکموں میں نہ صرف کام پر لگ جاتے ہیں ،بلکہ بعض اعلی مناصب تک پہنچ جاتے ہیں اورصلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے ملک وملت  کا سخت نقصان کرتے ہیں،اس لیےنقل کرکے ڈگری حاصل کرنا اورنااہل ہونے کے باوجود تنخواہ لینا جائز نہیں ،البتہ اگرایسے شخص میں متعلقہ کام کی مطلوبہ صلاحیت مکمل طور پر موجود ہواور سپرد کیا ہوا کام پوری دیانتداری سے انجام دے ، تو عمل اور محنت کی اجرت اور معاوضہ کے طور پرتنخواہ لینے کی گنجائش ہے۔

(2)۔یہ رشوت ہے ،قرآن وسنت میں اس پر بہت سخت وعیدیں آئی ہیں ،ملاحظہ ہوں:

1۔ارشاد باری تعالی ہے:

"وَلاَ تَأکُلُوْا أمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَا الیٰ الْحُکَّامِ لِتَأکُلُوْا فَرِیْقًا مِنْ أمْوَالِ النَّاسِ بِالْاثْمِ وَأنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔"(البقرة:188)

تر جمہ: "اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقوں سے نہ کھاؤ اور نہ ان کا مقدمہ حاکموں کے پاس اس غرض سے لے جاؤ کہ لوگوں کے مال کا  کوئی حصہ جانتے بوجھتے ہڑپ کرنے کا گناہ کرو۔"

علامہ ابن کثیررحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیربیان کرتے ہوئے لکھاہے کہ یہ آیت ایسے شخص کے بارے میں ہے جس کے پاس کسی کاحق ہو؛لیکن حق والے کے پاس ثبوت نہ ہو،اس کمزوری سے فائدہ اٹھاکروہ عدالت یاحاکم مجازسے اپنے حق میں فیصلہ کروالے اوراس طرح دوسرے کاحق غصب کرلے۔یہ ظلم ہے اورحرام ہے۔عدالت کافیصلہ ظلم اورحرام کوجائزاورحلال نہیں کرسکتا۔یہ ظالم عنداللہ مجرم ہوگا۔(ابن کثیر:1/168)

اس حرام خوری اور رشوت ستانی کی بنیاد پر اﷲ تعالیٰ نے یہودیوں کی مذمت فرمائی اور انہیں سب سے بڑا مجرم قرار دیا ہے۔

2۔اللہ تعالی کا ارشاد  ہے:

"سماعون للكذب أكالون للسحت" (المائدہ:42)

ترجمہ: "یہ کان لگالگا کر جھوٹی باتیں سننے والے ،جی بھربھر کر حرام کھانے والے ہیں۔"

قرآن مجید میں اس جگہ لفظ "سُحت "سے مراد رشوت ہے، حضرت علی کرم الله وجہہ ، ابراہیم نخعی، حسن بصری، مجاہد، قتادہ اور ضحاک رحمہم اللہ نےاس کی تفسیر رشوت سے کی ہے۔"سُحت “کے لفظی معنی کسی چیز کو جڑ، بنیاد سے کھود کر برباد کرنے کے ہیں۔ اس معنی میں قرآن کریم نے فرمایا:﴿فَیُسحتکم بعذاب﴾ یعنی اگر تم اپنی حرکت سے باز نہ آؤ گے تو الله تعالیٰ اپنے عذاب سے تمہارا استیصال کر دے گا، یعنی تمہاری بنیاد ختم کر دی جائے گی ۔

رشوت کو" سُحت "کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف لینے دینے والوں کو برباد کرتی ہے، بلکہ پورے ملک وملت کی جڑ، بنیاد اورامن عامہ کو تباہ کرنے والی ہے۔ جس ملک یا محکمہ میں رشوت چل جائے، وہاں قانون معطل ہو کر رہ جاتا ہے اور قانون ہی وہ چیز ہے، جس سے ملک وملت کا امن برقرار رکھا جاتا ہے، وہ معطل ہو گیا ، تو نہ کسی کی جان محفوظ رہتی ہے ، نہ آبرو، نہ مال۔ اس لیے شریعتِ اسلام میں اس کو" سُحت" فرماکر اشدحرام قرار دیا ہے حتی کہ امراء وحکام کو سرکاری منصب پر ہوتے ہوئےجو ہدیے اور تحفے پیش کیے جاتے ہیں، ان کو بھی صحیح حدیث میں رشوت قرار دے کر حرام کر دیا گیا ہے ،اگرچہ ان سے کوئی غلط فیصلہ یا ناحق مراعات حاصل نہ کی گئی ہوں۔(مأخذہ:معارف القرآن:3/151)

3۔نیز دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:

وترى كثيرا منهم يسارعون في الإثم والعدوان وأكلهم السحت لبئس ما كانوا يعملون (62) لولا ينهاهم الربانيون والأحبار عن قولهم الإثم وأكلهم السحت لبئس ما كانوا يصنعون (63) (المائدہ)

ترجمہ:"اور ان میں سے بہت سوں کو تم دیکھوگے کہ وہ گناہ ،ظلم اور حرام خوری میں لپک لپک کر آگے بڑھتے ہیں،سچ تو یہ ہے کہ جو حرکتیں یہ کرتے ہیں وہ نہایت بری ہیں۔ان کے مشایخ اور علماء ان کو گناہ کی باتیں کہنے اور حرام کھانے سے آخر کیوں منع نہیں کرتے؟حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ طرزِ عمل نہایت برا ہے۔"

4۔سنن ابن ماجہ (2/ 775) میں حضرت عبداللہ بن عمرر ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«لعنة الله على الراشي والمرتشي»

ترجمہ:رشوت لینے اوردینے والے پراللہ کی لعنت برستی ہے“۔

اسلام کی نظرمیں جس طرح رشوت لینے اوردینے والاملعون اوردوزخی ہے، اسی طرح اس معاملہ

کی دلالی کرنے والابھی حدیث رسول کی روشنی میں ملعون ہے۔

5۔مسند أحمد (37/ 85)میں صحابی رسول حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي والرائش» يعني: الذي يمشي بينهما۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے اوردینے والے اوررشوت کی دلالی کرنے والے سب پرلعنت فرمائی ہے۔"

 6۔مسند أحمد (29/ 356) میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے رسول الله

ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:

«ما من قوم يظهر فيهم الربا، إلا أخذوا بالسنة، وما من قوم يظهر فيهم الرشا، إلا أخذوا بالرعب»

جس قوم میں سود عام ہو جاتا ہے وہ خشک سالی میں مبتلا ہو جاتی ہے اورجس قوم میں رشوت عام ہو جاتی ہے، اس پر دشمن کا رعب طاری ہو جاتا ہے۔

 (3)۔ رشوت لے کر نقل کی کھلی چھوٹ دینا قومی اور علاقائی نقصان کا باعث ہے، اس کے نتائج اتنے مہلک ہیں کہ ان کے تصور ہی سے دل کانپ اٹھتا  ہے۔ اس  کے بے شمار اخلاقی نقصانات ہیں،مثلا:

1۔ اس سے لوگوں  کے ذہنوں سے حق و باطل، حلال و حرام، جائز و ناجائز کی تمیز مٹنے لگتی ہے۔

 2۔اس سے بے انصافی و بے مروتی اور بے ایمانی  فروغ پاتی  ہے، چنانچہ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حقدار شخص کی فریاد رسی اور آہ و بکا پر کوئی کان دھرنے والا نہیں ہوتا اور اس کا حق مارا جاتا ہے۔

3۔محکمہ تعلیم میں نااہل لوگوں کی تقرریوں سے ملکی تعلیمی نظام تباہ ہوجاتا ہے،تعلیم کے علاوہ بہت ہی اہم محکمے نااہلوں کے سپر د کیے جاتے ہیں ،جس کی وجہ سے پورے ملک کے عوام کا شدید نقصان ہوجاتاہے۔

4۔حق داروں کا دل دکھا کررشوت لینے والے کی انفرادی زندگی بھی رشوت کی تباہ کاریوں سے

محفوظ نہیں رہتی ۔ بظاہر ان کی آمدن میں اضافہ ہوجاتا ہے، لیکن  درحقیقت روپے پیسے کے ڈھیر

کے باوجودوہ دل کے سکون ، روح کے قرار اور ضمیر کے  اطمینا ن سے محروم رہتے ہیں۔

حوالہ جات

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

04/ربیع الاول1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب