021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کفریہ الفاظ سے نکاح کاحکم
77965نکاح کا بیاننکاح کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے متعلق کہ میاں بیوی کے درمیان مندرجہ ذیل مکالمہ واٹس ایپ میں ہوا ہے۔

شوہر(پشتو و انگلش میں) میں  نے(یہ شادی) خوشی میں نہیں کیا ہے، (You know all)آپ سب کچھ جانتی ہو۔

 بیوی نے انگریزی میں جواب دیا تو شوہر نے بھی انگریزی   میں مندرجہ ذیل جواب دیا ۔

Wife: Allah Knows, I don’t know.

Husband :Forget about Allah. Allah won’t do nothing. Has he done anything? Never. I don’t believe.

بیوی: گڈ مڈ باتیں مت کریں، مسلمان ہو، کم ازکم مسلمان تو صحیح بن جاؤ۔

Husband: No Need, There are more non-Muslims in the word and happy.

بیوی: آپ کی مرضی۔

ان کا مکالمہ ختم ہوا، اب سوال یہ ہے کہ یہ کلمات  کفریہ ہیں؟      اگر کفریہ ہیں تو اس شخص کے ایمان کا کیا حکم ہے؟   کیا تجدیدِ ایمان  کے ساتھ اس شخص کا تجدیدِ نکاح ضروری ہے؟  نکاح کی تجدید کے بغیر، کیا وہ خاتون اس کے پاس جا سکتی ہے؟

شوہر انگلینڈ میں تھا وہاں سے پاکستان آ کر کچھ وقت گزارا لیکن بیوی اور اس کا اس دوران کوئی تعلق نہیں رہا، اب وہ دوبارہ چلا گیا، نہ کوئی رابطہ کررہا ہے، نہ واپس آرہا ہے اور نہ اس مسئلے کے حل میں پیش ہو رہا ہے،اب اس کا کیا حل ہے؟کیا یہ  نکاح ختم ہو  کر بیوی مکمل طور پر آزاد ہے؟

قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مطلوب ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شوہرنےجانتے بوجھتےہوئےیہ کلمات بولے ہیں تومردپرتجدیدایمان اورتجدیدنکاح ضروری ہے اورعورت اس کے نکاح سےآزاد ہوچکی ہے،کیونکہ جانتے بوجھتے ہوئے کفریہ کلمات کہنے سے ایمان ختم ہوجاتاہے اورنکاح بھی ٹوٹ جاتاہے۔

حوالہ جات
فی الفتاوى الهندية (ج 17 / ص 85):
 يكفر إذا وصف الله تعالى بما لا يليق به ، أو سخر باسم من أسمائه ، أو بأمر من أوامره ، أو نكر وعده ووعيده ، أو جعل له شريكا ، أو ولدا ، أو زوجة ، أو نسبه إلى الجهل ، أو العجز ، أو النقص ويكفر بقوله يجوز أن يفعل الله تعالى فعلا لا حكمة فيه ويكفر إن اعتقد أن الله تعالى يرضى بالكفر كذا في البحر الرائق .
فی البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي (ج 11 / ص 342):
 والحاصل أن من تكلم بكلمة الكفر هازلا أو لاعبا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده كما صرح به قاضيخان في فتاواه، ومن تكلم بها مخطأ أو مكرها لا يكفر عند الكل، ومن تكلم بها عالما عامدا كفر عندالكل، ومن تكلم بها اختيارا جاهلا بأنها كفر ففيه اختلاف، والذي تحرر أنه لا يفتي بتكفير مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره اختلاف ولو رواية ضعيفة، فعلى هذا فأكثر ألفاظ التكفيرالمذكورة لا يفتى بالتكفير بها ولقد ألزمت نفسي أن لا أفتي بشئ منها.
وفی رد المحتار (4/ 230):
ما يكون كفرا اتفاقا يبطل العمل والنكاح، وما فيه خلاف يؤمر بالاستغفار والتوبة وتجديد النكاح وظاهره أنه أمر احتياط.
رد المحتار - (ج 16 / ص 258)
والحاصل : أن من تكلم بكلمة للكفر هازلا أو لاعبا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده كما صرح به في الخانية ومن تكلم بها مخطئا أو مكرها لا يكفر عند الكل ، ومن تكلم بها عامدا عالما كفر عند الكل ومن تكلم بها اختيارا جاهلا بأنها كفر ففيه اختلاف

 

محمد اویس بن عبدالکریم

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

06/03/1444

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب