021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ٹرانس جینڈر (Transgender) سے متعلق پاکستانی قانون کا شرعی جائزہ
77973جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

2018ء میں  پاکستان میں خنثی  (Intersex Person)کے حقوق کے تحفظ كے ليے ایک قانون پاس ہوا، جس میں اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ کوئی  ٹرانس جینڈر اپنے آپ کو مرد یا عورت ظاہر کر سکتا ہے اور نادرا کو بھی اس کی مرضی کے مطابق اس کی جنس لکھنےکا پابند بنایا گیا ہے ، سوال یہ ہے کہ کیا یہ قانون شریعت کے اصولوں کے مطابق ہے؟ قانون کی کاپی ساتھ منسلک ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال کے ساتھ منسلک  ٹرانس جینڈر پرسنزپروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ 2018ء کے نام سے بنائے گئے قانون کا جائزہ لیا گیا تو اس میں مختصراً درج ذیل امور معلوم ہوئے:

  1. اس ایکٹ کا مقصد خنثی کے حقوق کا تحفظ ہےمگر قانون کے نام میں عنوان" ٹرانس جینڈر شخص  کے حقوق کا تحفظ" دیا گیا ہے۔

  2. قانون کی دفعہ نمبر2 اِی (e) میں جنس کے اظہار(Gender Expression) اور دفعہ نمبر2ایف(f) میں جنسی شناخت (Gender Identity)  کی تعریف ذکر کی گئی ہے۔

  3. قانون کی دفعہ نمبر2این میں ٹرانس جینڈر کی تعریف اور اس  کا مصداق ذکر کیا گیا ہے، جس میں پیدائشی خنثی کے علاوہ حادثاتی طور پر نامرد ہونے والے شخص کے ساتھ ہر ایسے مرد وعورت کو بھی داخل کیا گیا ہے جس کی ذاتی جنسی شناخت یا جنس کا اظہار  اس کی پیدائشی جنس سے مختلف ہو۔

  4. قانون کی دفعہ نمبر3 کی ذیلی شق نمبر1 کے تحت ٹرانس جینڈر کو اپنے ذاتی ادراک کے مطابق کسی بھی جنس میں اپنی شناخت کروانے کا حق دیا گیا ہے۔

  5.  قانون کی دفعہ نمبر3 کی ذیلی شق نمبر2 کے تحت نادرا اور ديگر تمام حكومتی اداروں کو اس بات کا پابند بنایا گیا کہ وہ  ٹرانس جینڈر کی مرضی کے مطابق اس کی جنس  رجسٹر کریں۔

  6. دفعہ نمبر7تا16 ميں ٹرانس جینڈر کے حقوق بیان کیے گئے ہیں، جیسے تعلیم اور ووٹ وغیرہ۔

  7. دفعہ نمبر17میں ٹرانس جینڈر کے بھیک مانگنے پر پابندی اور اس کی سزا بیان کی گئی   ہے۔

اس اجمال کے بعد اب قانون کے ان پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے جو  تعبیری، قانونی اور شرعی اعتبار سے درست نہیں ہیں، شرعی نقطہٴ نظر سے اس قانون میں  کئی اعتبار سے چار  بنیادی  مفاسد، غلطیاں اور خرابیاں ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

شرعی فسادنمبر1: قانون كا نام رکھنے میں غلطی:

اس ایکٹ کانام"Transgender Persons (Protection of Rights)" رکھا گیاہے، اس میں انگریزی لفظ ٹرانس جینڈر استعمال کیا گیا ہے، لہذا  اس قانون کو سمجھنے کے لیے ٹرانس جینڈر کا معنی اور مفہوم سمجھنا ضروری ہے، ٹرانس جینڈر  ایک جدید مبہم اصطلاح ہے، لغوی معنی کے اعتبار سے یہ انگریزی کے دو الفاظ "trans"اور "gender"کا مرکب ہے، "trans" کا لفظی معنی تبدیلی ہے اور"gender" صنف یا جنس کو کہتے ہیں۔ نیزمذکر و مؤنث دونوں اصناف کے لیے بھی جینڈر"gender"استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح ان دو الفاظ سے مرکب ٹرانس جینڈر"Transgender"کے لفظی معنی عربی میں متحول الجنس اور اردو میں جنس تبدیل کرنے والے کے ہیں، یعنی  لڑکا سے لڑکی یا لڑکی سے لڑکا بننے والا۔

اصطلاحی طور پرٹرانس جینڈر ایک ایسا شخص  کہلاتاہے جو اپنی اس جنس سےاختلاف کرے جو اس کی پیدائش کے وقت شناخت کی گئی تھی۔ چنانچہ انگلش ڈکشنری میں  ٹرانس جینڈر کی تعریف درج ذیل الفاظ میں ذکرکی گئی ہے:

Definition of transgender:

a person whose gender identity differs from the sex the person had or was identified as having at birth especially of relating to, or being a person whose gender identity is opposite the sex the person had or was identified as having at birth.[1]

اقوامِ متحدہ کی ویب سائٹ پر ٹرانس جینڈر کی تعریف درج ذیل الفاظ میں ذکر کی گئی ہے، دیکھیے عبارت:

Gender identity refers to a person’s experience of their own gender. Transgender people have a gender identity that is different from the sex that they were assigned at birth. A transgender or trans person may identify as a man, woman, transman, transwoman, as a non-binary person, and with other terms such as hijra, third gender, two-spirit, travesti, fa’afafine, genderqueer, transpinoy, muxe, waria and meti. Gender identity is different from sexual orientation. Trans people may have any sexual orientation, including heterosexual, homosexual, bisexual and asexual.[2]

ٹرانس جینڈر کی ان تعریفات کی روشنی میں دو باتیں بالکل واضح ہیں:

اول: یہ کہ ٹرانس جينڈرہونے یا نہ ہونے کا تعلق جنس/صنف کے بارے میں کسی شخص کے ذاتی احساس اور ذہنی رجحان سے ہے،کیونکہ ٹرانس جینڈر شخص اپنے ذاتی احساسات  اور ذہنی رجحانات کی بنیاد پر  اپنی پیدائشی جنس کو قبول نہیں کرتا، بلکہ وہ اپنی جنس کو اپنی پیدائشی جنس کے مخالف قرار دیتا ہے، اس کا جنسی خواہش ہونے یا نہ ہونے سے تعلق نہیں ہے، چنانچہ درج بالا  عبارت میں یہ بھی مذکور ہے کہ ایک ٹرانس جینڈر ہم جنس پرست، مخالف جنس پرست، دونوں جنسوں کی طرف رجحان رکھنے والا اور کسی کی طرف بھی جنسی رجحان نہ رکھنے والا ہو سکتا ہے۔

دوم: یہ کہ  کہ ٹرانس جینڈر ہونے كا تعلق جنسی اعضاء میں خلل ہونے سے بھی نہیں، چنانچہ عموماً ٹرانس جینڈرشخص کے جنسی اعضاء میں کسی قسم کا خلل یا نقص  نہیں ہوتا ، بلکہ جسمانی ساخت کے لحاظ سے  وہ ایک  کامل مرد یا عورت ہوتی ہے  اور  اس میں نفسانی اور جنسی خواہش بھی موجود ہوتی ہے۔[3]

ٹرانس جینڈر کے حوالے سے یہ دونوں باتیں خنثی سے مختلف ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ ٹرانس جینڈر خنثی کا ہم معنی لفظ نہیں، بلكہ لغوی اور اصطلاحی اعتبار سے دونوں میں فرق ہے، چنانچہ ذیل میں خنثی کی تعریف ملاحظہ فرمائیں:  

 

خنثی (Intersex Person)کی تعریف:

خنثی عربی زبان کا لفظ ہے، یہ وہ شخص ہے جس کے جنسی اعضاء میں پیدائش کے وقت سے ہی کچھ خلل  اور نقص ہو، چنانچہ اقوام ِ متحدہ کی ویب سائٹ پر خنثی کی تعریف درج ذیل الفاظ میں ذکر ی گئی ہے:

INTERSEX / SEX CHARACTERISTICS:

Intersex people are born with physical or biological sex characteristics, such as sexual anatomy, reproductive organs, hormonal patterns and/or chromosomal patterns, which do not fit the typical definitions of male or female. These characteristics may be apparent at birth or emerge later in life, often at puberty. Intersex people can have any sexual orientation and gender identity.[4]

مشہور انگلش ڈکشنری  میرئیم ویبسٹرمیں بھی  خنثی کی یہی تعریف مذکور ہے، دیکھیے عبارت:

Definition of intersex/hermaphrodite:

The condition (such as that occurring in congenital adrenal hyperplasia or androgen insensitivity syndrome) of either having both male and female gonadal tissue in one individual or of having the gonads of one sex and external genitalia that is of the other sex or is ambiguous.[5]

مذکورہ بالا دونوں  عبارتوں کا حاصل   یہ ہے کہ جس فرد میں نر اور مادہ دونوں کے تناسلی اعضاء (Gonadal Tissue) ہوں یا ایک جنس کے Gonadal Tissue ہوں اور دوسرے کے External Tissues ہوں یادوسری جنس کے Tissues مبہم ہوں، وہ خنثی کہلائے گا۔

اس سے معلوم ہوا کہ خنثی (Intersex Person/Hermaphrodite) ہونا ایک حقیقی طبعی وجسمانی حالت ہے، جس ميں اس كے پیدائشی جنسی تولیدی اعضاء میں خلل اور نقص ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی جنس واضح نہیں ہوتی۔

شرعی اعتبار سے بھی خنثٰی صرف اسی انسان کو کہا جاتا ہے جس کے مردانہ اورزنانہ دونوں قسم کے جنسی اعضاء موجود ہوں یا یہ دونوں اعضاء موجود نہ ہوں، چنانچہ علامہ حصکفی رحمہ اللہ نے خنثی کی درج ذیل الفاظ میں تعریف کی ہے:

الدر المختار مع حاشية ابن عابدين (6/ 727) دار الفكر-بيروت:

وهو ذو فرج وذكر أو من عرى عن الاثنين جميعا، فإن بال من الذكر فغلام، وإن بال من الفرج فأنثى وإن بال منهما فالحكم للأسبق، وإن استويا فمشكل، ولا تعتبر الكثرة.

یہ تعریف چاروں مذاہب (حنفیہ، مالکیہ،شافعیہ اور حنابلہ)کے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے اپنی اپنی کتبِ فقہ میں  ذکر فرمائی ہے۔گویا کہ شریعت اور طب کا اس پر اتفاق ہے کہ خنثی صرف وہ انسان ہوتا ہے جس کےجنسی اعضاء میں پیدائش کے وقت سے ہی نقص ہو،ذیل میں احناف کے علاوہ مذاہبِ ثلاثہ کی  عبارات  بھی ملاحظہ فرمائیں:

الفروع وتصحيح الفروع (8/ 52) محمد بن مفلح بن محمد بن مفرج الحنبلي (المتوفى: 763هـ) مؤسسة الرسالة:

باب ميراث الخنثى: وهو من له شكل ذكر رجل وفرج امرأة، فإن بال أو سبق بوله من ذكره فهو ذكر، نص عليه، وعكسه أنثى، وإن خرج منهما معا اعتبر أكثرهما، فإن استويا فمشكل.

الحاوي الكبير (8/ 168) دار الكتب العلمية، بيروت:

قال الشافعي: الخنثى هو الذي له ذكر كالرجال وفرج كالنساء أو لا يكون له ذكر ولا فرج ويكون له ثقب يبول منه، وهو وإن كان مشكل الحال فليس يخلو أن يكون ذكرا أو أنثى، وإذا كان كذلك، نظر، فإن كان يبول من أحد فرجيه فالحكم له، وإن كان بوله من ذكره فهو ذكر يجري عليه حكم الذكور في الميراث وغيره ويكون الفرج عضوا زائدا وإن كان بوله من

فرجه فهو أنثى يجري عليه أحكام الإناث في الميراث وغيره ويكون الذكر عضوا زائدا لرواية الكلبي عن أبي صالح عن ابن عباس عن النبي - صلى الله عليه وسلم  -أنه سئل عن مولود ولد له ما للرجال وما للنساء فقال - صلى الله عليه وسلم  - يورث من حيث يبول.

المعونة على مذهب عالم المدينة (ص: 1657) أبو محمد عبد الوهاب بن علي بن نصر الثعلبي البغدادي المالكي (المتوفى: 422هـ) المكتبة التجارية، مكة المكرمة:

الخنثى يعتبر منها بالمبال، فإن بال من الذكر حكم له بحكم الذكر، وإن بال من الفرج حكم بحكم الأنثى، وإن بال منهما جميعا فهو الخنثى المشكل فيكون له نصف ميراث الذكر ونصف ميراث الأنثى متفق عليه.

ٹرانس جینڈر اور خنثی میں فرق کا خلاصہ:

 ٹرانس جینڈر اور خنثی کی تعریفات سے یہ بات بالکل واضح اور عیاں ہوجاتی ہے کہ ٹرانس جینڈر  اورخنثی ايك دوسرے كے  ہم معنی لفظ نہیں، بلکہ ان ميں سے ہر ایک مستقل اصطلاح ہے اوراصطلاحی اعتبار سے  ہر ایک  کا  معنی اورمصداق  بھی جدا جدا ہے،  ٹرانس جینڈر  کا مصداق وہ شخص ہے جو اپنے ذاتی احساسات  یا نفسیاتی عارضےیا نفسانی خواہش کی بنیاد پر اپنی پیدائشی جنس کا انکار کرے، خواہ وہ جسمانی ساخت کے لحاظ سے مکمل مرد یا مکمل عورت ہو۔جبکہ خنثی شرعی وطبی لحاظ سے صرف اسی شخص کو کہتے ہیں جس کی جسمانی ساخت (جنسی اعضاء وغیرہ) میں پیدائشی خلل ہو اور اس کی وجہ سے اس کی جنس واضح نہ ہو۔

ٹرانس جینڈر کا عنوان درست نہ ہونے کی وجوہات:

جب پیچھے ذکر کی گئی تفصیل سے ٹرانس جینڈر اور خنثی کے معنی ومفہوم اور مصداق میں فرق واضح ہوا تو اس سے مذکورہ قانون  میں درج ذیل خرابیاں معلوم ہوئیں:

الف: خنثی کو ٹرانس جینڈر کے لفظ سے تعبیر کرنا لغتا ًوشرعاً غلط ہے،   کیونکہ  انگریزی  میں خنثی  کے لیے ٹرانس جینڈر  کی بجائےانٹرسیکس(Intersex)  کا لفظ استعمال ہوتاہے، ٹرانس جینڈر کاخنثی کے لیے استعمال  کسی لغت میں نہیں ملتا۔ اس کی باقی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔

ب:ٹرانس جینڈر غیر فطری اور غیر شرعی نظریہ جنسی شناخت(Gender Identity) پر مبنی اصطلاح ہے، اس کو قانون میں ذکر کرنا اس غیر اسلامی نظریے کو قبول کرنے اور فروغ دینے کے مترادف ہے، چنانچہ قانون کی دفعہ نمبر2 ای (e) میں جنس کے اظہار(Gender Expression) اور دفعہ نمبر2 ایف (f)جنسی شناخت(Gender Identity) کی تعریفات سے بھی اس نظریے کی طرف اشارہ  معلوم ہوتا ہے، اس نظریے کی مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔

ج: اس قانون کا مقصد خنثی کے حقوق کا تحفظ ہے،  جبكہ ٹرانس جینڈر کا عنوان  اختیار کر کے ایسے لوگوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے جو  طبی وشرعی اعتبار سے خنثی میں داخل نہیں، لہذا یہ تاثر قطعی طور پر غلط ہے کہ یہ ایکٹ خنثی کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے۔[6]

شرعی فسادنمبر2: ٹرانس جینڈر کا مصداق ٹھہرانے میں غلطی:

قانون کی دفعہ نمبر2این (n) کےتحت قانون کی نظر میں"Transgender" کا مصداق بیان کیا گیا ہے اور اس میں درج ذیل تین قسم کے افراد کو شامل کیا گیا:

الف: جو پیدائشی طور پر خنثی ہو، یعنی اس میں مرد اور عورت دونوں کی علامات موجود ہوں یا ااس کےجنسی اعضاء میں ابہام ہو۔

ب: جو پیدائشی طور پر کامل مرد ہو، مگر بعد میں کسی حادثہ (Accident)کی وجہ سے اس کی مردانہ  صلاحیت ختم ہو جائے یا وہ خصی ہو جائے۔

ج: ٹرانس جینڈر مرد وعورت، خواجہ سرا اور کوئی بھی  ایسا شخص جو  اپنی صنفی شناخت اپنی پیدائش کے وقت بتائی گئی جنس سے مختلف محسوس کرے۔

جبکہ اگر اس قانون کا مقصد خنثی کے حقوق کا تحفظ ہے اور اس جگہ بیانِ مصداق سے مقصود بھی خنثی کا مصداق متعین کرنا ہے تو یہاں خنثی کے مصداق میں "ب" اور"ج" میں ذکرکردہ افراد کو شامل کرنا شرعی اور طبی ہر لحاظ سے غلط ہے،کیونکہ شرعاً وطباًّ خنثی ہونے کے لیے جسمانی ساخت میں نقص ہونا ضروری ہے، جیسا کہ مذاہبِ اربعہ، اقوامِ متحدہ  اور انگلش ڈکشنری کے حوالہ جات پیچھے گزر چکے ہیں، لہذا یہاں ٹرانس جینڈر کے مصداق میں تین افراد کو شامل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس قانون کا مقصدمعاشرے كے ہر فرد (خواہ وہ کامل مرد وعورت ہو یا حادثاتی طور پر وہ جنسی صلاحیت کھو دے) کو اپنی پیدائشی جنس کے خلاف تبدیلِ جنس اور تعیینِ جنس کی اجازت دینا ہے، جبکہ یہ بات واضح طور پر قرآن وسنت کی تصریحات کے خلاف ہے، چنانچہ اس کی  مزیدتفصیل آگے دفعہ نمبر3کے تحت آرہی ہے۔

ٍشرعی فسادنمبر3:ٹرانس جينڈر كو اپنی شناخت ذاتی رجحان کے مطابق کروانے کا اختیار دینا(Self  Perceived Gender Identity):

قانون کی دفعہ نمبر3 کی ذیلی شق نمبر1 کے تحت ٹرانس جینڈرشخص کو اپنی جنس کی شناخت اپنی خواہش کے مطابق کسی بھی جنس سے کروانے کا حق دیا گیا ہے، قانون کی اس دفعہ میں اصل غلطی یہ ہے کہ یہ دفعہ جنس کی شناخت(Gender Identity) کے غیر شرعی اور غیرفطری نظریے پر مبنی ہے، جو اقوامِ متحدہ کے قانون کے تو مطابق ہے، مگر اسلامی قانون اور شریعت کے خلاف ہے، کیونکہ یہاں بھی ٹرانس جینڈر کا لفظ استعمال کر کے عام مردوعورت دونوں کو شامل کیا گیا ہے، لہذا اس اطلاق کی رُو سے مذکورہ دفعہ سے درج ذیل دو غیر شرعی اور ناجائز چیزوں کی گنجائش نکلتی ہے:

الف: حقیقی جنس کے خلاف جنسی شناخت کا حق دینا:

 ایک غیر شرعی گنجائش یہ نکلتی ہے کہ اس دفعہ کی رُو سے کوئی مرد اپنی شناخت عورت سے اور کوئی عورت  اپنی شناخت مرد سے کروا سکے گا، جبکہ یہ  بات قرآن وسنت کی تعلیمات کے مخالف ہے، کیونکہ شرعاً ہر فرد کی جنس کا تعین  اللہ تعالیٰ کا طے شدہ فیصلہ ہے، چنانچہ مسلم شریف کی حدیثِ صحیح میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے کہ ماں کے پیٹ میں نطفہ پرجب بیالیس دن گزر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھیجتے ہیں جو اس کی شکل وصورت، اعضاء، گوشت اور ہڈیاں بناتا ہے، پھر وہ فرشتہ اللہ تعالیٰ سے پوچھتا ہے کہ یارب! اس کو مذکربنانا ہے یا مؤنث؟ تو اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق اس کے مذکر یا مؤنث ہونے کا فیصلہ فرماتے ہیں۔ حدیث کی سند اور متن ملاحظہ فرمائیں:

صحيح مسلم (4/ 2037، رقم الحديث: 2645) باب کیفیة خلق  الادمی فی بطن ٲمه، دار إحياء التراث العربي، بيروت:

حدثني أبو الطاهر أحمد بن عمرو بن سرح، أخبرنا ابن وهب، أخبرني عمرو بن الحارث، عن أبي الزبير المكي، أن عامر بن واثلة، حدثه أنه سمع عبد الله بن مسعود، يقول: الشقي من شقي في بطن أمه والسعيد من وعظ بغيره، فأتى رجلا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يقال له: حذيفة بن أسيد الغفاري، فحدثه بذلك من قول ابن مسعود فقال: وكيف يشقى رجل بغير عمل؟ فقال له الرجل: أتعجب من ذلك؟ فإني سمعت

رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إذا مر بالنطفة ثنتان وأربعون ليلة، بعث الله إليها ملكا، فصورها وخلق سمعها وبصرها وجلدها ولحمها وعظامها، ثم قال: يا رب أذكر أم أنثى؟ فيقضي ربك ما شاء، ويكتب الملك، ثم يقول: يا رب أجله، فيقول ربك ما شاء، ويكتب الملك، ثم يقول: يا رب رزقه، فيقضي ربك ما شاء، ويكتب الملك، ثم يخرج الملك بالصحيفة في يده، فلا يزيد على ما أمر ولا ينقص ".

مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی انسان کا مرد یا عورت ہونا خالص اللہ تعالیٰ کا تکوینی فیصلہ ہے،جس کی پہچان کا معیار انسانوں کے حق میں جسمانی ساخت کو بنایا گیا ہے، لہذا جس کے جسمانی اعضاء مردوں والے ہوں وہ شرعا مرد شمار ہوگا اور جس کے جسمانی اعضاء عورتوں والے ہوں وہ شرعا عورت شمار ہو گی،  اس میں کسی انسان کی مرضی، منشاء اور ذاتی احساسات ورجحانات کا کوئی عمل دخل نہیں ہے

ایک اور حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مردوں پر لعنت فرمائی جو عادات وغیرہ میں عورتوں کی طرح بننے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں، حدیث کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

مسند أحمد ط الرسالة (4/ 28، رقم الحدیث: 2123) مؤسسة الرسالة،بيروت:

حدثني يزيد، أخبرنا هشام، عن يحيى، عن عكرمة، عن ابن عباس: " أن النبي صلى الله عليه وسلم لعن المخنثين من الرجال، والمترجلات من النساء "

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ نے جس کو مرد بنایا ہے اس کےلیے دوسری جنس یعنی عورت کی مشابہت اختیارکرنا جائز نہیں، اسی طرح جس کو اللہ تعالیٰ نے عورت بنایا ہے اس کے لیے مرد کی مشابہت اختیار کرنا ناجائز ہے، جب دوسری جنس کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے تو اپنی جنس کی شناخت دوسری جنس سے کروانا شرعی اعتبار سے بدرجہ اولیٰ ناجائز اور ممنوع ہے۔

ب: اپنی جنس تبدیل کروانے کی اجازت دینا:

دوسری غیر شرعی گنجائش یہ کہ اس دفعہ کی رُو سے تبدیلِ جنس کا راستہ نکلتا ہے، کیونکہ جب ہر شخص کو اپنی خواہش کے مطابق تمام دستاویزات میں  اپنی جنس کے انتخاب اور اندراج کا قانونی حق حاصل ہو گا تو اس کے ضمن میں اس کو یہ حق بھی حاصل ہو گا کہ وہ اپنے قانونی کاغذات اور دستاویزات کے مطابق آپریشن کے ذریعہ اپنی ظاہری جسمانی ساخت کو تبدیل کروا لے، مثلا ایک کامل مرد اپنی مردانہ ساخت کو ختم کروا کے نسوانی ساخت بنوالے یا اس کا برعکس بن جائے۔ حالانکہ اپنی جنس تبدیل کروانا شریعت کی رُو سے قطعا حرام اور ناجائز ہے، چنانچہ زمانہٴ جاہلیت میں لوگ جانوروں کے کان وغیرہ کاٹتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جانوروں کے اعضاء وغیرہ کاٹ کر اللہ کی بنائی  ہوئی مخلوق میں تبدیلی کرنے سے منع فرماتے ہوئے  اس فعل کو شیطانی کام قرار دیا اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والے افراد کا ٹھکانہ جہنم قرار دیا، دیکھیے قرآن کی آیتِ مبارکہ:

القرآن الكريم [النساء: 119 - 121]:

{وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ وَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا (119) يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا (120) أُولَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَلَا يَجِدُونَ عَنْهَا مَحِيصًا }

اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر کے تحت علامہ فخرالدین رازی، علامہ قرطبِی، علامہ آلوسی اور دیگر تمام مفسرین  نے اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں صفتِ تخلیق تبدیل کرنے کو ناجائز اور حرام قرار دیاہے، اسی لیے مذاہب اربعہ کے تمام فقہائے کرام کا قدرت کی تخلیق میں تبدیلی کی حرمت پر اتفاق ہے، لہذا اس قانون میں مرد وعورت کوسرجری کے ذریعہ  اپنی جنس تبدیل کرنے کی اجازت دینا قرآن کے حکم کی مخالفت ہے اور  یہ درحقیقت قدرت کی تخلیق میں چھیڑ چھاڑ نظامِ فطرت کے بگاڑ کا باعث ہے، اس لیے اسلام ہر اس فعل سے سختی سے منع کرتا ہے جس سے فطرتِ صحیحہ میں بگاڑ پیدا ہوتا ہو، چنانچہ خودکشی کرنا، اپنے اعضاء کاٹنا، اپنے آپ کو حیوانات کی شکل دینا یا اپنے جنسی اعضاء تبدیل کروانا قطعاً حرام اور ممنوع ہے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک حدیث نقل کی ہے، جس میں حضرت  عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سوئی وغیرہ کے ذریعہ جسم گودنے والی، جسم گدوانے والی، پیشانی کے بال اکھاڑنے والی اورحسن کے لیے اپنے دانتوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے والی خواتین پر لعنت فرمائی اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ چیز میں تبدیلی کرنے والی ہیں، پھر فرمایا کہ میں اس پر کیوں لعنت نہ کروں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی؟ حدیث کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

صحيح البخاري (7/ 166، رقم الحديث: 5943) دار طوق النجاة:

حدثني محمد بن مقاتل، أخبرنا عبد الله، أخبرنا سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة، عن ابن مسعود رضي الله عنه قال: «لعن الله الواشمات والمستوشمات، والمتنمصات والمتفلجات للحسن، المغيرات خلق الله» ما لي لا ألعن من لعنه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو في كتاب الله.

جب ان کاموں پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لعنت وارد ہوئی ہے تو انسانی جنس کو تبدیل کرنا ان کی بنسبت بہت بڑا جرم ہے، لہذا اس سے اجتناب انتہائی ضروری ہے۔

      ٹرانس جینڈر  اصطلاح کی بنیادجنسی شناخت (Gender identity)کا نظریہ:

ٹرانس جینڈر اصطلاح کی بنیاد جنسی شناخت (Gender identity) کا نظریہ ہے، “Gender identity”کا لغوی معنی اپنی جنس کی شناخت اور پہچان ہے، اصطلاحی معنی کے اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ذاتی احساسات ،جذبات، اندرونی کیفیات اور اپنی خصوصیات کا جائزہ لے کر اپنی جنس کی شناخت کرنا، یہ نظریہ 1964ء میں ایک انگریزسائنس دان  رابرٹ جے ڈاٹ  سٹالر(Robort J. Stoller)نے پیش کیا، اس کا کہنا تھا کہ جنس کی شناخت“Gender identity” انسان کی ذاتی خصوصیت ہے، اس میں ظاہری جنسی اعضاء کو کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ اس کا انسان کے اپنے ذاتی احساسات ، جذبات، اندرونی کیفیات، معاشرتی رہن سہن  اور طور طریقوں سے تعلق ہے، جنس سے متعلقہ تعلیمStudies) (Gender میں اس کو  مردانہ خصوصیات"Masculinity/Masculine social role"اورنسوانہ خصوصیات"Femininity/Feminine social role"سے تعبیر کیاجاتا ہے اور یہ چیزیں ہر انسان میں مختلف ہو سکتی ہیں، لہذا ظاہری جنسی اعضاء سے قطع نظر  ہر آدمی ان سب چیزوں کے مجموعہ کا جائزہ لے کر اپنی جنس کی پہچان کر سکتا ہے۔ جنس سے متعلقہ تعلیمStudies) (Gender میں  اس کی ضاحت  درج ذیل ہے:

جینڈر اسٹڈیز میں  جینڈر(Gender) اور سیکس (Sex)میں فرق  کیا جاتا ہے،  سیکس کا مطلب انسان کا میل(Male) یا فی میل(Female)  یاخنثی / انٹر سیکس (Intersex)ہونا ہے، جبکہ جینڈر کا مطلب انسان کا مین(Man) یا وومین (Woman)ہونا ہے، پھراس میں جنسی شناخت کا اصول یہ ہے کہ اگر میل (جس کے جنسی اعضاء مردانہ ہوں) میں مردانہ خصوصیات(Masculinity) ہوں  تو وہ مین  (Man) یعنی مرد کہلائے گا، اگر فی میل(جس کے جنسی اعضاء نسوانی ہوں)  میں  نسوانی خصوصیات (Femininity)ہوں تو وہ وومین(Woman) یعنی عورت کہلائے گی، جبکہ اس کے برعکس اگر میل اپنے اندر نسوانی خصوصیات (Femininity) محسوس کرے تو اس  کو ٹرانس وومین(Transwoman) اور اگر فی میل اپنے اندر مردانہ خصوصیات(Masculinity) محسوس کرے تو اس کو ٹرانس مین(Transman) کہا جاتا ہے،  انہیں ٹرانس مین اور ٹرانس وومین کو ٹرانس جینڈر (Transgender) یعنی اپنی  پیدائشی جنس کو تبدیل کرنے والا شخص کہا  جاتا ہے۔نیزمردانہ خصوصیات  میں مردانگی، غیر جذباتی ہونا، جارحانہ رویہ رکھنا، سخت  جسم والا ہونا، مسابقت کا جذبہ ہونا، مضبوط اور  فعال ہونا وغیرہ شامل ہیں، جبکہ نسوانی خصوصیات میں نسوانیت، جذباتی ہونا، حساس ہونا، معصوم، کمزورہونا، مطیع ہونا،  انفعالیت یعنی تاثر لینے والا ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ اور ان چیزوں  کا تعلق معاشرے اور ماحول سے بھی  ہوتا ہے، اس لیے جنسی شناخت  کے نظریے کی اصل ہر انسان کا  اپنے اندر ان  مردانہ یا زنانہ خصوصیات کو محسوس کرنا ہے، جنسی شناخت  کے نظریے کے مطابق  اسی احساس (Feeling) کی بنیاد پر  ہر آدمی اپنی جنس کا تعین اور شناخت کر سکتا ہے۔[7]

چنانچہ  اس نظریہ کے مطابق اقوام متحدہ کا قانون ہر شخص کو یہ حق دیتا ہےکہ وہ اپنے  احساس اوررجحان کے مطابق اپنی جنس /صنف کا تعین خود کرے، چنانچہ اقوام متحدہ کی ویب سائٹ سے  لی گئی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

Recognition of gender identity:

Everyone has the right to be recognized as a person before the law. The United Nations has affirmed the right of trans persons to legal recognition of their gender identity and a change of gender in official documents, including birth certificates, without being subjected to onerous and abusive requirements. This right is violated in all regions. Many countries deny trans people any possibility of obtaining legal recognition of their gender identity. Many of those that do provide for legal recognition, force trans individuals to meet various conditions before their identity can be recognized – including sterilization, sex-assignment surgery or treatment, psychiatric diagnosis of gender identity disorder, divorce and confinement in psychiatric institutions. In most countries minors and nonbinary people have no access to recognition of their gender identity.[8]

ٹرانس جینڈر کے تصور کے حوالے سے بنیاد کی حیثیت رکھنے والا  یہ نظریہ جنس کے بارے میں  اسلام کے نقطہٴ نظر کے بالکل مخالف ہے،  کیونکہ اس میں مردوعورت کی جنس کا مدار ذاتی احساسات وخیالات یا مردانہ و زنانہ رجحانات  پر رکھا گیاہے، نہ کہ ظاہری جنسی اعضاء کی بنیاد پر۔ جبکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ ہر شخص کی جنس  قدرتی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین کردہ ہے، اس میں انسان  کے ذاتی احساسات وخیالات اور مردانہ و زنانہ رجحانات  کا کوئی دخل نہیں ہے، چنانچہ اسلام کی رُو سے ہر شخص کی جنس  کا فیصلہ انسان کے ظاہری جنسی اعضاء اور باطنی تولیدی اعضاء کی بنیاد پر ہوتا ہے، گویا کہ اسلام میں جنس کی تعیین کا اختیار انسان کے پاس نہیں ہے، بلکہ یہ ایک غیر اختیاری اور قدرتی معاملہ ہے، جس میں قدرتی جسمانی اعضاء کی بنیاد پر ہی فیصلہ کرنا لازم ہے، حتی کہ اگر کسی کے جنسی اعضاء میں کوئی ابہام ہو تو بھی جنس کا فیصلہ اس کے  غالب ظاہری اور باطنی تولیدی اعضاء کی بنیاد پر ہو گا، جن کی تعیین آج جدید طبی ذارئع سے کوئی مشکل نہیں رہی، وہ اس طرح کہ اس کے اندر مرد وعورت  میں سے جس جنس کی علامات زیادہ ہوں وہی جنس اس کے لیے متعین ہو گی۔

مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ ٹرانس جینڈر کی اصطلاح اس شخص کے لیے  وضع کی گئی جو اپنے  ذاتی  احساسات اور ذہنی رجحانات  کی بنیاد پر اپنی پیدائشی  جنس سے اختلاف  کرے۔

 یہ بات یاد رہے کہ اگر چہ اصل کے اعتبارسے ٹرانس جینڈر کے پیچھے  ذاتی احساسات و رجحانات کی بنیاد پر اپنی جنس کی شناخت کا نظریہ کارفرما ہے،جس کا اصل مصداق صرف وہ شخص ہے جو ذہنی طور پر اپنی پیدائشی جنس کو قبول نہ کرے، مگر اب مغرب میں  یہ اصطلاح  مطلق طور پر ہر اس شخص کے لیے استعمال ہونے لگی ہے جو اپنی پیدائشی جنس کا انکار کرے،  خواہ اس کے پیچھے اس  نظریے کی بنیاد پر اس کےذاتی احساسات  ورجحانات ہوں یا   اس کے انکار کی وجہ محض نفسانی خواہش ہو یا وہ  حقیقتاً کسی نفسیاتی  عارضےکی وجہ سےاس کیفیت میں مبتلا ہو، جس کو میڈیکل میں جنیڈر ڈیسفوریا(Gender Dysphoria) کہا جاتا ہے۔

خنثی كو تعیینِ جنس کا اختیار دینے كا حكم:

اس دفعہ نمبر3 میں ٹرانس جینڈر کے ساتھ  خنثی(Intersex Person)  کو بھی یہ  اختیار دیا گیا ہے  کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات میں اپنی کوئی بھی جنس لکھوا سکتا ہے، جبکہ اسلامی تعلیمات کی رُو سے خنثی کو مطلق طور پر یہ اختیار دینا غلط اور ناجائز ہے، کیونکہ خنثی کی تعیینِ جنس کے بارے میں مذاہبِ اربعہ کے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے احادیث کی روشنی میں یہ اصول لکھا ہے  کہ  بلوغت سے پہلےاگر وہ ذکَر(آلہٴ تناسل)کے راستے سے پیشاب کرے تو ایسا خنثی  شریعتِ اسلامیہ کی نظر میں مکمل طور پر مرد شمار ہوتا ہے اور اس سے متعلقہ تمام شرعی احکام بھی مردوں والے ہوں گے، اور اگر وہ فرج کے راستے سے پیشاب کرے تو وہ مکمل عورت شمار ہوتی ہے اور اس کے تمام احکام عورتوں والےہوں گے، اگر وہ دونوں راستوں سے پیشاب کرے تو وہ خنثی مشکل شمار ہوگااور احتیاط کے تقاضے کے مطابق اس پر بعض احکام مردوں والے اور بعض عورتوں والے جاری ہوں گے، جیسےنماز میں عورت کے بیٹھنے کی طرح بیٹھنا، ریشمی کپڑا اور زیور نہ پہننا، حالت احرام میں سلا ہوا کپڑا پہننا اور کسی مرد یا عورت کے سامنے ستر نہ کھولنا، بغیر محرم کے تنہاسفر نہ کرنا اور کسی نامحرم مرد یا عورت کے ساتھ خلوت نہ کرنا وغیرہ۔  

مذاہب ِاربعہ کے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے بھی خنثی کی یہی تفسیر نقل کی ہے،[9] اسی لیے امام ابن المنذر اور امام ابن القطان  رحمہم اللہ نے اس مسئلے پر اجماع نقل كيا ہے۔ البتہ اُس دور میں فقہائے کرام رحمہم اللہ کا یہ فیصلہ (پیشاب کے راستے سے تعیینِ جنس) محض ایک علامت کے طور پر تھا، چنانچہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ پیشاب کا ایک راستے سے آنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہی اصلی عضو ہے، اس سے معلوم ہوا کہ مبال (پیشاب گاہ) تعیینِ جنس کے لیے معیار بنانا محض ایک علامت کے طور پر تھا، اسی لیے بلوغت کے بعد فقہائے کرام رحمہم اللہ نے زنانہ اور مردانہ دیگر علامات جیسے چھاتی کے اُبھرنے وغیرہ کو بھی خنثی کی تعیینِ جنس میں معتبر قرار دیا ہے، جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں تصریح کی گئی ہے، لہذا  اب عصرِ حاضر میں سائنس کے ترقی یافتہ دور میں الٹراساؤنڈ، ایکسرے  اوردیگر ٹیسٹوں (Tests)کے ذریعہ اندرونی اعضاء کی حقیقت بھی معلوم ہو سکتی ہے، اس لیے  اب ان ذرائع سے بھی تعیینِ جنس کے سلسلہ میں مدد لی جائے گی، لہذا اب بلوغت سے پہلے اور بعد خنثی کی تعیینِ جنس کا فیصلہ کرنے میں فقہائے کرام رحمہم اللہ کی ذکرکردہ علامات یعنی ظاہری جنسی اعضاء کے ساتھ ساتھ باطنی تولیدی اعضاء اور ہارمونز وکروموسومز کو بھی ملحوظ رکھا جائے گا اور اس کے لیے شریعت کے ماہر علمائے کرام اور میڈیکل کے ماہر ڈاکٹر حضرات پر مشتمل ایک کمیٹی یا بورڈ کا ہونا ضروری ہے، جس کے فیصلے کے بعد خنثی مشکل کو اپنی اصل جنس کی تعیین اور تبیین کی اجازت دی جائے۔

مذکورہ  تفصیل خنثی کی تعیینِ جنس سے متعلق تھی، جہاں تک جنس تبدیل کرنے کا تعلق ہے تو عام افراد کی طرح اپنی جنس تبدیل کرنے کا اختیار خنثی کو بھی نہیں ہے اور تبدیلئ جنس سے متعلق پیچھے ذکر کی گئی وعید میں ایسا خنثی بھی شامل ہے، جو اپنی مرضی سے اپنی جنس تبدیل کرتا ہے۔البتہ اگر کوئی مرد یا عورت ایسی ہو، جس کے جنسی اعضاء اور باطنی تولیدی اعضاء میں کچھ ابہام ہو تو اس کے لیے ماہر ڈاکٹر حضرات سے مشاورت اور ٹیسٹوں وغیرہ کے ذریعہ اپنی جنس کی تبیین (مبہم جنس کوظاہر کرنا) جائز ہے، یہ تبدیلیٴ جنس کے زمرے میں نہیں آئے گا، جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے۔

خلاصہ یہ کہ شریعت وطب کے ماہرین کا اتفاق ہے کہ خواہ خنثی ہو یا کوئی اور کامل انسان، بہر صورت انسانی جسم میں حادثاتی طور پر ہونے والی ظاہری تبدیلی یا انسان کے ذہنی احساسات کی بنیاد پر تعیینِ جنس اور تغییر جنس کا فیصلہ قطعاً نہیں کیا جائے گا، لہذا اس قانون میں فقہائے کرام رحمہم اللہ کی بیان کی گئی علامات اور ظاہری وباطنی اعضائے تولیدسے قطع نظر کرکے محض ذاتی پسند وناپسند اور قلبی رجحانات کی بنیاد پر ٹرانس جینڈر کی مبہم اصطلاح کے تحت خنثی سمیت ہر مردو عورت کو اپنی جنس کے انتخاب کا اختیار دینا شریعت کے احکام کی سراسر مخالفتاور کھلی بغاوت ہے، جس کی قرآن وسنت میں کوئی گنجائش نہیں ہے، نیز اس میں شرعی اور اخلاقی دونوں قسم کےمفاسد پائے جاتے ہیں،جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

  1. اس قانون کی رو سے ایک مرد صرف اپنے احساسات کی بنیاد پر شناختی دستاویزات میں اپنے آپ کو عورت لکھوا کر ان تمام جگہوں پر جا سکتا ہے جو خواتین کے لیے مخصوص کی گئی ہوں،جیسے ہسپتالوں میں مخصوص وارڈز، پبلک مقامات پر خواتین کے لیے مخصوص  استنجا خانے (Washrooms)  اور خواتین کےلیے اداروں میں کام کرنا وغیرہ،  اسی طرح عورت کو بھی اپنی جنس تبدیل کرکے مردوں کی تمام جگہوں پر جانے کا قانوناً اختیار حاصل ہو گا، جس سے فحاشی وعریانی عام ہو گی اورمردوعورت کے لیے حیاداری کے دائرے میں بے انتہا بگاڑ پیدا ہو گا۔

  2. ایک عورت اپنے آپ کو مرد لکھوا کر وراثت میں قانوناً مرد کے برابر دو حصے لینے کی حق دار ہو گی، جس سے دیگر ورثاء کی حق تلفی ہو گی، جبکہ قرآن کریم کی آیت مبارکہ {لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ} [النساء: 11] میں واضح طور پر لڑکے کا حصہ لڑکی سے دوگنا قرار دیا گیا ہے، اسی طرح مرد کو بھی یہ اختیار حاصل ہو گا۔

  3. نکاح جیسے اہم ترین معاملے میں ایک مرد اپنے آپ کو عورت لکھوا کر اپنے ہم جنس مرد سے شادی کرنے اور ایک عورت اپنے آپ کو مرد لکھوا کر اپنی ہم جنس عورت سے شادی کرنے کی قانوناً حق دار ہو گی،  جبکہ ایسے نکاح کو شرعاً، عقلاً اور عرفاً کسی بھی طرح جائز قرار نہیں دیا جا سکتا اور اس سے ہم جنس پرستی، بے حیائی، فحاشی وعریانی کا ایک ایسا بھیانک دروازہ کھلے گا، جو خاندانی نظام کے لیے تباہ کن ہو گا۔

  4. معاشرے کا کوئی بھی فرد اپنے آپ کو خلاف ِجنس لکھوا کر اپنا لباس، وضع قطع، رہن سہن اور طرزِ زندگی اسی جنس کی طرح اختیار کرسکتا ہے، جبکہ احادیثِ مبارکہ میں ایک عورت کو مردوں کی مشابہت اور ایک مرد کو عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے اور ایسا کرنے والوں پر صحیح حدیث میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے:

صحيح البخاري (7/ 159) دار طوق النجاة:

حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال»

شرعی فساد نمبر4:نادرا کو ٹرانس جینڈر کی مرضی کے مطابق جنس لکھنے کا پابند بنانا:

قانون کی دفعہ نمبر3 کی ذیلی شق نمبر2 کے تحت نادرا اور ديگر تمام حكومتی اداروں کو اس بات کا پابند بنایا گیا کہ وہ  ٹرانس جینڈر کی مرضی کے مطابق اس کی جنس لکھے، اس بناء پر نادرا نے اس قانون کی پاسداری کرتے ہوئے نادرا ریگولیشنز ۲۰۰۲ کی دفعہ ۱۳ (۱) میں ترمیم کر کے جنس کی درج ذيل پانچ کیٹگریز (Categories) بنائی ہیں:

  1.  مرد Man

  2. عورت Woman

  3. خصی مرد  Male Eunuch

  4. خصی عورت Female Eunuch

  5. یونی سیکس (جس  کی جنسی حالت واضح نہ ہوں) Unisex

یہ دفعہ بھی قرآن وسنت کے مخالف ہے،کیونکہ جب اپنی جنس کی شناخت اپنی مرضی سے کروانا خلافِ شریعت ہے تو نادرا اوردیگر حکومتی اداروں کو اس بات کا پابند بنانا کہ وہ ہر شخص کی جنس اس کی مرضی کے مطابق لکھے،جائز نہیں، نیز نادرا کا یہ اقدام بھی خلافِ شریعت ہے، کیونکہ انسانوں میں شرعی اعتبار سے مردوعورت کے علاوہ کسی تیسری جنس کا کوئی وجود نہیں ہے۔

الغرض یہ قانون اصولی اعتبار سے شریعت اور آئینِ پاکستان دونوں کے خلاف ہے،کیونکہ پاکستان کے آئین میں تصریح ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔لہذا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوراً اس قانون میں موجود خلاف ِشرع تمام دفعات کو ختم کرے اور شریعت کے اصولوں کے مطابق  دوبارہ قانون سازی  کرے، جس کے لیے شریعت کے ماہر علمائے کرام، میڈیکل کے ماہرڈاکٹرز اور آئین وقانون کے ماہرین  وکلاء سے مشاورت بھی کی جائے، نیز ایکٹ میں ترمیم کے سلسلہ میں   مختصراً ہماری تجاویز درج ذیل ہیں:

  1. ايكٹ كا نام تبديل كركے خنثی (Intersex Person) کے حقوق کا تحفظ رکھا جائے۔

  2. خنثی کی تعریف شرعی اور طبی اصولوں کے مطابق ظاہری جنسی اعضاء اور باطنی تولیدی نظام  کی بناء پر کی جائے۔

  3. خنثی کو انتخابِ جنس کا حق مطلقا نہ دیا جائے، بلکہ  طبی معائنہ اور ماہر ڈاکٹروں کے پینل کی رپورٹ کو لازمی قرار دیا جائے۔

  4. بہتر یہ ہے کہ قانون میں صراحت کر دی جائے کہ پیدائشی جنس میں محض ذاتی خواہش کی بنیاد پر تبدیلی (خواہ محض شناخت ظاہر کرنے کی حد تک ہو یا سرجری کے ذریعہ واقعتا تبدیلی ہو)قانوناً جرم تصور ہو گی، جس پر سزا دی جائے گی۔

نوٹ: ٹرانس جینڈر ایکٹ سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات بھی آچکی ہیں، لہذا اس ایکٹ میں ترمیم کے سلسلہ میں ان سفارشات کو بھی مدِنظر رکھا جا سکتا ہے۔

 


[1] https://www.merriam-webster.com/dictionary/transgender.

[2] UNFE.org.

[3] واضح رہے کہ اسلام آباد کے سائیکالوجسٹ ڈاکٹر عنصر جاوید صاحب نے بتایا کہ بعض اوقات آدمی بغیر کسی نفسانی خواہش اور غلط نظریے کے حقیقتا وہ اپنے آپ کو دوسری جنس سمجھنے لگتا ہے، یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے، جس کو میڈیکل میں جینڈر ڈسفوریا (Gender Dysphoria) کہتے ہیں ، اس بیماری میں مبتلا شخص کو بھی ٹرانس جینڈر کہا جاتا ہے، اس بیماری کا نفسیاتی علاج کیا جاتا ہے، جس سے مریض بالکل تندرست ہو جاتا ہے۔

[4] https://www.unfe.org/definitions/

[5] https://www.merriam-webster.com/dictionary/intersexuality

[6] واضح رہے کہ ٹرانس جینڈر اور خنثی سے متعلق یہاں تک ذکرکی گئی مکمل بحث کو کراچی کے ڈاکٹر فرحان صدیقی کنسلٹنٹ یورالوجسٹ اینڈ انٹرالوجسٹConsultant Urologist and Enterologist) اور بعض دیگر ڈاکٹروں  سے مشاورت کے بعد فائنل گیا ہے۔

[7] Explanation:

   Sex : Male, Female and intersex

   Man= Male + Masculine social role.

                               Woman = Female + Feminine social role.

Masculinity : independent, non-emotional, aggressive, tough skinned, competitive, strong, active,, hard, aggressive, rebellious.

Femininity : dependent, emotional, sensitive, quiet, graceful, innocent, weak, nurturing, submissive, accepting.

Gender Identity : The deeply felt and experienced sense of a male in opting masculine social role or feminine social role. And the deeply felt and experienced sense of a female in opting masculine social role or feminine social role.

Gender Role : Role assigned by the society based on different sexes. Gender studies believe that these roles are defined by social construct.

[8] UNFE.org

[9] خنثی کے بارے میں یہ تفصیل مصنف عبد الرزاق (10/ 308) کی ایک روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی معلوم ہوتی ہے، انہوں نے خنثی کی میراث کے بارے میں فرمایا کہ اگر وہ ذکَر(آلہٴ تناسل) کے راستے سے پیشاب کرتا ہے تو وہ مذکر شمار ہو گا۔

حوالہ جات
القران الكريم  [الحجرات: 13]:
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ}
القران الكريم  [النساء: 1]:
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا }
القران الكريم  [هود: 40]:
{قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ }
صحيح البخاري (7/ 159) دار طوق النجاة:
حدثنا معاذ بن فضالة، حدثنا هشام، عن يحيى، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: لعن النبي صلى الله عليه وسلم المخنثين من الرجال، والمترجلات من النساء، وقال: «أخرجوهم من بيوتكم» قال: فأخرج النبي صلى الله عليه وسلم فلانا، وأخرج عمر فلانا.
صحيح البخاري (7/ 159) دار طوق النجاة:
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال»
مصنف عبد الرزاق الصنعاني (10/ 308) المكتب الإسلامي – بيروت:
19204 - عبد الرزاق، أخبرنا الثوري , عن مغيرة , عن الشعبي , عن علي: «أنه ورث خنثى ذكرا من حيث يبول»
الإقناع في مسائل الإجماع (2/ 104) علي بن محمد بن عبد الملك الكتامي الحميري الفاسي، أبو الحسن ابن القطان (المتوفى: 628هـ) الفاروق الحديثة للطباعة والنشر:
وأجمع كل من يحفظ عنه من أهل العلم على أن الخنثى يورث من حيث يبول، إن بال من حيث يبول الرجل ورث ميراث الرجال، وإن بال من حيث تبول المرأة ورث ميراث المرأة، وهو قول الكوفة وسائر أهل العلم.
الإجماع لابن المنذر (ص: 75) أبو بكر محمد بن إبراهيم بن المنذر النيسابوري (المتوفى : ھ) دار المسلم للنشر والتوزيع:
وأجمعوا على أن الخنثى يرث من حيث يبول، إن بال من حيث يبول الرجال ورث ميراث الرجال، وإن بال من حيث تبول المرأة، ورث ميراث المرأة.
 
الدر المختار مع حاشية ابن عابدين (6/ 727) دار الفكر-بيروت:
وهو ذو فرج وذكر أو من عرى عن الاثنين جميعا، فإن بال من الذكر فغلام، وإن بال من الفرج فأنثى وإن بال منهما فالحكم للأسبق، وإن استويا فمشكل، ولا تعتبر الكثرة.
الفتاوى الهندية (6/ 437) دار الفكر-بيروت:
يجب أن يعلم بأن الخنثى من يكون له مخرجان قال البقالي - رحمه الله تعالى - أو لا يكون له واحد منهما ويخرج البول من ثقبة ويعتبر المبال في حقه، كذا في الذخيرة فإن كان يبول من الذكر فهو غلام، وإن كان يبول من الفرج فهو أنثى، وإن بال منهما فالحكم للأسبق، كذا في الهداية وإن استويا في السبق فهو خنثى مشكل عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -؛ لأن الشيء لا يترجح بالكثرة من جنسه، وقالا: ينسب إلى أكثرهما بولا وإن كان يخرج منهما على السواء فهو مشكل بالاتفاق، كذا في الكافي قالوا: وإنما يتحقق هذا الإشكال قبل البلوغ، فأما بعد البلوغ والإدراك يزول الإشكال فإن بلغ وجامع بذكره فهو رجل، وكذا إذا لم يجامع بذكره ولكن خرجت لحيته فهو رجل، كذا في الذخيرة وكذا إذا احتلم كما يحتلم الرجل أو كان له ثدي مستو، ولو ظهر له ثدي كثدي المرأة أو نزل له لبن في ثدييه أو حاض أو حبل أو أمكن الوصول إليه من الفرج فهو امرأة، وإن لم تظهر إحدى هذه العلامات فهو خنثى مشكل، وكذا إذا تعارضت هذه المعالم، كذا في الهداية وأما خروج المني فلا اعتبار له؛ لأنه قد يخرج من المرأة كما يخرج من الرجل، كذا في الجوهرة النيرة قال: وليس الخنثى يكون مشكلا بعد الإدراك على حال من الحالات؛ لأنه إما أن يحبل أو يحيض أو يخرج له لحية أو يكون له ثديان كثديي المرأة، وبهذا يتبين حاله وإن لم يكن له شيء من ذلك فهو رجل؛ لأن عدم نبات الثديين كما يكون للنساء دليل شرعي على أنه رجل، كذا في المبسوط لشمس الأئمة السرخسي - رحمه الله تعالى -.
البناية شرح الهداية (13/ 529) دار الكتب العلمية – بيروت:
قلت: أبو يوسف إمام مجتهد ثقة كيف يروي عن الكلبي مع علمه بأنه لا يحتج به، ولو لم يعلم أنه ثقة لما روى عنه.
وقد أيده أيضا ما روي م: (عن علي - رضي الله عنه -) ش: فقال المصنف: وعن علي م: (مثله) ش: رواه ابن أبي شيبة في " مصنفه " حدثنا الحسن بن كثير الأحمسي عن أبيه عن معاوية أنه أتي في خنثى فأرسلهم إلى علي - رضي الله عنه - فقال: يورث من حيث يبول، ورواه الشعبي نحوه، وروى عبد الرزاق في " مصنفه " عن سعيد بن المسيب نحوه، وزاد: فإن كانا في البول سواء فمن حيث سبق. م: (ولأن البول من أي عضو
كان فهو دلالة على أنه هو العضو الأصلي الصحيح، والآخر بمنزلة العيب) ش: وقال ابن المنذر: أجمع أهل العلم على أن الخنثى يورث من حيث يبول، وهكذا كان الحكم في الجاهلية، فقرره الشرع.
م: (وإن بال منهما فالحكم للأسبق؛ لأن ذلك دلالة أخرى على أنه هو العضو الأصلي، وإن كانا في السبق على السواء، فلا معتبر بالكثرة عند أبي حنيفة - رحمه الله -) ش: وبه.
الزواجر عن اقتراف الكبائر (1/ 256) دار الفكر،بيروت:
[الكبيرة السابعة بعد المائة تشبه الرجال بالنساء فيما يختصصن به عرفا] غالبا من لباس أو كلام أو حركة أو نحوها وعكسه أخرج البخاري والأربعة عن ابن عباس - رضي الله عنهما - قال: «لعن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال» .
ملتقى الأبحر (ص: 467) دار الكتب العلمية ، بيروت:
هو من له ذكر وفرج وإن بال من أحدهما اعتبر به، وإن بال منهما اعتبر الأسبق وإن استويا فهو مشكل ولا اعتبار بالكثرة خلافا لهما فإذا بلغ فإن ظهرت بعض علامات الرجال من نبات لحية أو قدرة على الجماع أو احتلام كالرجل، فرجل، فإن ظهر بعض علامات النساء من حيض وحبل وإنكسار ثدي ونزول لبن فيه، وتمكين من الوطء فامرأة، وإن لم يظهر شيء أو تعارضت هذه المعالم مثلما إذا حاض وخرجت له لحية أو يأتي ويؤتى فمشكل. قال محمد: الإشكال قبل البلوغ، فإذا بلغ فلا إشكال، وإذا ثبت الإشكال أخذ فيه بالأحوط فيصلي بقناع، ويقف بين صفي الرجال والنساء،
فلو وقف في صفهم يعيد من لاصقه من جانبيه ومن بحذائه من خلفه وإن في صفهن أعاد هو فلا يلبس حريرا ولا حليا ويلبس المخيط في إحرامه ولا يكشف عند رجل ولا امرأة ولا يخلو به غير محرم من رجل أو امرأة، ولا يسافر بغير محرم، ولا يختنه رجل ولا امرأة، بل تبتاع له أمة تختنه من ماله إن كان له مال، وإلا فمن بيت المال، ثم تباع، فإن مات قبل ظهور حاله لا يغسل بل يتيمم، ويكفن في خمسة أثواب، ولا يحضر بعدما راهق غسل رجل ولا امرأة.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

7/ربیع الاول1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب