78044 | طلاق کے احکام | خلع اور اس کے احکام |
سوال
میری بیوی نے اپنی والدہ کے کہنے پر عدالت سے خلع کی ڈگری لی، ہماری چونکہ پسند کی شادی تھی، اس لیے میں نے ہر طرح سے اپنی بیوی کا خیال رکھنے کی کوشش کی، کبھی اس پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور خرچہ بھی مکمل دیتا رہا، مگر وہ اپنی والدہ کے کہنے پر عدالت میں گئی، اس نے اپنے دعوی میں جھوٹی باتیں ذکر کی تھیں، میں نے عدالت میں جواب دعوی بھی دائر کیا اور ان باتوں کا میں نے تحریری جواب دیا، اس نے اپنے دعوی پر کوئی گواہ بھی پیش نہیں کیے،لیکن عدالت نے صرف اس کے کہنے پر خلع کی ڈگری جاری کر دی، سوال یہ ہے کہ کیا یہ خلع کی ڈگری معتبر ہے؟ جبکہ میں نے اس پر دستخط بھی نہیں کیے اور نہ میں نے ابھی تک اس فیصلے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ عدالتی فیصلہ ساتھ منسلک ہے، لہذا شریعت کی روشنی میں جواب دے کر ممنون فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
منسلکہ عدالتی فیصلہ میں خلع کے الفاظ لکھے گئے ہیں اور خلع کے شرعاً معتبر ہونے کے لیے میاں بیوی کی باہمی رضامندی کا ہونا ضروری ہے، بغیر شوہر کی رضامندی کے خلع درست نہیں ہوتا، جبکہ سوال میں تصریح کے مطابق شوہر نے اس فیصلے پر دستخط نہیں کیے اور نہ ہی ابھی تک اس فیصلے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے، اس لیے بطورِ خلع یک طرفہ جاری کیا گیا یہ عدالتی فیصلہ شرعاً معتبر نہیں، جہاں تک فسخِ نکاح کا تعلق ہے تو منسلکہ فیصلہ میں فسخِ نکاح کی کوئی معتبر وجہ ذکر نہیں کی گئی، اس لیے اس فیصلہ کو فسخِ نکاح کے طور پر بھی معتبر قرار نہیں دیا جا سکتا، لہذا اس فیصلہ کی وجہ سے نکاح ختم نہیں ہوا، بلکہ شرعی اعتبار سے فریقین کے درمیان نکاح بدستورقائم ہے اور عورت کا شوہر سے طلاق یا اس کی رضامندی سے خلع لیے بغیر دوسری جگہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔
حوالہ جات
۔۔۔
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
30/ربيع الاول 1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |