021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اجیر کا مالک کی اجازت کے بغیر دکان میں اپنا کاروبار شروع کرنا
78126غصب اورضمان”Liability” کے مسائل متفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ میں نےکاروبار کرنے کے لیے تقریبا 13 سال پہلے ایک دکان ایڈوانس دےکرکرائے پرلی،اس کو بنایا اور اس میں مال ڈالا اور اپنے چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ اس کاروبار میں اجرت پر رکھا اور اپنی غیرموجودگی اور غیر معینہ مدت کے لیے کاروبار سے غیر حاضری یا اپنی ذاتی مصروفیات یا وجوہات کی بنا پر اپنے پیچھے چھوٹے بھائی کو اجرت پر کاروبار کی دیکھ بھال کے لئے زبانی اپنا قائم مقام بنایا۔

مسئلہ نمبر ۱-کیا میرا بھائی میرے پاس اجرت پر کام کرتے ہوئے میری غیر موجودگی میں میرے کاروبار کے فائدے کو دیکھتے ہوئے یا کسی مالی خسارے سے بچانے کے لیے میرا قائم مقام ہوتے ہوئے مجھ سے کوئی معاہدہ کئے بغیر میرے پاس اجرت پر کام کرتے ہوئے میری ہی آدھی جگہ پر میرے ہی فرنیچر پر بغیر ایڈوانس دیئے صرف الگ مال ڈال کر اپنا کاروبار مالکانہ حقوق  کے ساتھ یوٹیلٹی بلز وغیرہ کے علاوہ کل اخراجات کاصرف ایک چوتھائی حصہ کرائے کی مد میں ادا کرنے پراپنے سے خود سے ہی فرضی زبانی کلامی معاہدہ کر کے شروع کرسکتا ہے؟

مسئلہ نمبر۲- اگر وہ اس طرح کا معاہدہ کر کے کاروبار شروع کرسکتا ہے تو اس معاہدے کی معیاد کتنی تصور کی جائے گی؟

بقول میرے چھوٹے بھائی کے آپ کے زبانی کلامی قائم مقام بنانے کی وجہ سے میں نے آپ کے کاروبار کو نقصان سے بچانے کے لیے خود سے یہ فرضی معاہدہ کیا اور اس فرضی معاہدے کی رو سے جب تک یہ جگہ آپ کے پاس ہے میں بھی اس جگہ پر کاروبار کرنے کا اتنا ہی اختیار رکھتا ہوں جتنا کے آپ اور وہ بھی کل اخراجات کا صرف ایک چوتھائی حصہ دے کر اگر کچھ بڑھا دوں تو یہ میرا آپ پر احسان ہوگا،معاہدے میں یہ شرط نہیں تھی سوائے اس کے کہ مالک کی طرف سے جب بھی کرایہ بڑھے گا تو بڑے ہوئے کرایہ کا آدھا بڑھانے کا پابند ہوں،یوٹیلٹی بلز اور دیگر اخراجات بڑھنے کی صورت میں میری کوئی ذمہ داری نہیں ہے،اس وقت کیے ہوئے فرضی معاہدے کے رو سے یہ میرا شرعی اور قانونی حق ہے۔

جبکہ میرا یہ مطالبہ ہے کہ وقت ضرورت کاروبار کو خسارے سے بچانے یا خسارہ کم کرنے کے لیے عارضی طور پر کسی تیسرے بندے سے معاہدہ کرنے کی حد تک تو چلو ٹھیک تھا،مگر یہ فرضی معاہدہ میرے علم میں لائے بغیر میرے پاس اجرت پر کام کرتے ہوئے خود سے اپنی مرضی کی شرائط پر کرنا شروع سے ہی غلط تھا،جس سے مجھے اور میرے کاروبار کو شدید مالی نقصان پہنچا اور آگے بھی مزید پہنچ رہا ہے،اگر یہ معاہدہ صحیح بھی تصور کیا جائے تو اس کی میعاد زیادہ سے زیادہ جو مارکیٹ میں چل رہی ہے گیارہ مہینے تصور کی جائے اور گیارہ مہینے کے بعد جتنا آپ ابھی تک استعمال کر چکے ہو اس جگہ کے کل خرچے کا نصف سے حساب کر کے جو بنتا ہے وہ ادا کرو اور فوری میری جگہ خالی کردو،کیا میرا یہ مطالبہ شرعی طور پر جائز ہے؟

مسئلہ نمبر۳-اگر مندرجہ بالا معاہدے یا معاملے میں شریعت کی روشنی میں حساب کتاب کر کے فرق کی رقم لینا جائز ہے تو کیا وہ رقم میں اپنے چھوٹے بھائی سے لین دین کے معاملے میں کٹوا سکتا ہوں؟ 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی بھی معاہدے کے لئے شرعی اور عقلی لحاظ سے فریقین کا وجود اور ان کی اس پر رضامندی ضروری ہے،فرضی طور پر کئے گئے معاہدے کی شرعا کوئی حیثیت نہیں،اس لئے مذکورہ صورت میں آپ کے بھائی کے خود سے کئے گئے فرضی معاہدے کی شرعا کوئی حیثیت نہیں ہے،بلکہ اس  کا مذکورہ طریقےسے آپ کی دکان کے آدھے حصے میں اپنا کاروبار شروع کرنا غصب کے حکم میں ہے،لہذا اس کے ذمے لازم ہے کہ فوری طور پر آپ کی دکان کے جس حصے پر وہ قابض ہے آپ کے حوالے کردے اور اپنے اس گرے ہوئے فعل پر سچے دل سے ندامت کے ساتھ کثرت سے توبہ و استغفار کا اہتمام کرے۔

اور اب تک اس نے دکان کے جس حصے کو اپنے ذاتی کاروبار کے لئے استعمال کیا ہے،اس کے ذمے لازم ہے کہ اس کی اجرت مثل(یعنی اس جگہ کی عام معروف اجرت)آپ کو ادا کرے،جبکہ اس کاروبار سے حاصل ہونے والا نفع اس کے لئے حلال ہے۔

حوالہ جات
"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام" (1/ 20):
"لو أخذ شخص مال آخر على سبيل المزاح بدون إذنه فبمجرد وقوع الأخذ يكون الآخذ غاصبا ولا ينظر إلى نيته من كونه لا يقصد الغصب بل يقصد المزاح، وكذلك لو أتى شخص عملا غير مأذون فيه فإنه يضمن الخسارة الناشئة عن عمله، ولو حصلت عن غير إرادة منه.
مثال ذلك: لو أن شخصا شاهد سكران وأخذ النقود التي يحملها بقصد حفظها من أن تسقط منه فحكمه حكم الغاصب ويصبح ضامنا فيما لو تلفت".
"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام" (1/ 460):
"الثالث: فيما إذا كان التجاوز غصبا؛ فلا تلزم الأجرة إلا إذا كان في مال معد للاستغلال، أو مال يتيم، أو وقف، أو مال بيت المال فإذا كان المال لواحد من هؤلاء، لزم أجر المثل".
"الفتاوى الهندية "(5/ 142):
"غصب حانوتا واتجر فيه وربح يطيب الربح كذا في الوجيز للكردري".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

11/ربیع الثانی1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب