021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اگر تم بازار سے سودا لینے گئی تو مجھ پر حرام ہوگی
78134طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

ہم مشترکہ خاندان میں رہتے ہیں،خواتین نے بازار سے سودا لانے کے دن بانٹے ہوئے ہیں، میری زوجہ کو میں نے ایک دن غصہ میں یہ بول دیا، آج کے بعد اگر تم بازار سے سودا لینے گئی تو مجھ پر حرام ہوگی،اس بات کے کچھ عرصہ بعد میری زوجہ کو میں نے موبائل پر بات کرتے ہوئے اجازت دے دی تھی اور وہ بھی معمول کے حساب سے بازار جانے لگیں، اس بات کو دس ماہ گزر گئے اور ہم اس دوران اپنی معمول کی زندگی گزارتے رہے۔مگر سوال تب اٹھا جب میری زوجہ اپنے ميکے گئیں تو وہاں اس مسئلے کو اٹھا کر اور مجھ سے الجھنے لگیں کہ ہمارے درمیان طلاق ہو چکی ہے۔

لہذا رہنمائی فرمائیں کہ کیا طلاق ہو چکی ہے؟یاد رہے کہ میں انہیں پہلے ہی اجازت دے چکا تھا بازار جانے کی اور میرا غصہ میں ان الفاظ کا استعمال بھی تنبیہ کیلئے تھا میرے دل میں طلاق کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔اور واضح رہے کہ اس کے بازار آنے جانے کے بعد بھی ہم  دس ماہ بطور شوہر اور بیوی کے ساتھ رہے ہیں اور مباشرت بھی کرتے رہے ہیں۔برائے مہربانی رہنمائی فرما کر سائل کو تشفی دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں آپ کے اپنی بیوی کو یہ الفاظ "اگر تم بازار سے سودا لینے گئی تو مجھ پر حرام ہوگی" کہنے سے ایک طلاقِ بائن معلق ہو چکی تھی اور معلّق طلاق کا حکم یہ ہے کہ اس سے رجوع نہیں ہو سکتا، بلکہ شرط کے پائے جانے کی صورت میں معلّق کیا گیا حکم شرعاً واقع ہو جاتا ہے، لہذا اس کے بعد آپ کی بیوی کے بازار سودا خریدنے کے لیے جانےکی وجہ سے اسی وقت اس پر ایک طلاقِ بائن واقع ہو گئی تھی اور فریقین کے درمیان نکاح ختم ہو چکا تھا، اس کے بعد آپ دونوں کا اکٹھے رہنا ہرگز جائز نہیں تھا، لہذا آپ دونوں پر گزشتہ دس ماہ اکٹھے رہنے پر اللہ تعالیٰ سے خوب گڑگڑا کر اور دل کی ندامت کے ساتھ اللہ تعالی سے توبہ واستغفار کرنا اورفوری طور پر علیحدگی اختیار کرنا لازم ہے۔

جہاں تک دوبارہ نکاح کا تعلق ہے تو فریقین کے درمیان باہمی رضامندی سے عدت کے دوران اور عدت کے بعدنئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں، لیکن اگر عورت کسی دوسری جگہ نکاح کرنا چاہے تو اس کے لیے عدت کا پورا کرنا  ضروری ہے اور یہ عدت فریقین کے درمیان علیحدگی ہونے کے بعد سے شروع ہو گی۔ نیز فریقین کے دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں خاوند کو صرف دو طلاقوں کا حق باقی ہو گا، اس لیے آئندہ طلاق کے معاملے میں احتیاط کی ضرورت ہو گی۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 139) دار الكتب العلمية،بيروت:
إن دخلت الدار فأنت طالق واحدة لا بل ثنتين؛ لأن ذلك إيقاع الثلاث علة في زمان ما بعد الشرط؛ لأنه أوقع الواحدة ثم تدارك الغلط بإقامة الثنتين مقام الواحدة والرجوع عن الأول، والرجوع لم يصح؛ لأن تعليق الطلاق لا يحتمل الرجوع عنه.
الهداية في شرح بداية المبتدي (2/ 276) دار احياء التراث العربي – بيروت:
" والعدة في النكاح الفاسد عقيب التفريق أو عزم الواطئ على ترك وطئها " وقال زفر رحمه الله من آخر الوطآت لأن الوطء هو السبب الموجب ولنا أن كل وطء وجد في العقد الفاسد يجريمجرى الوطأة الواحدة لاستناد الكل إلى حكم عقد واحد ولهذا يكتفى في الكل بمهر واحد فقبل المتاركة أو العزم لا تثبت العدة مع جواز وجود غيره ولأن التمكن على وجه الشبهة أقيم مقام حقيقة الوطء لخفائه ومساس الحاجة إلى معرفة الحكم في حق غيره.
فتح القدير للكمال ابن الهمام (4/ 331) دار الفكر،بيروت:
(أقيم مقام حقيقة الوطء لخفاء الوطء ومسيس الحاجة إلى معرفة الحكم في حق غيره) أي في غير الواطئ وهو حلها للأزواج والخفي لا يعرف الحكم وإذا أقيم مقام حقيقة الوطء لا تثبت العدة ما دام التمكن على وجه الشبهة قائما ولا ينقطع التمكن كذلك إلا بالتفريق أو المتاركة صريحا فلا تثبت العدة إلا عندهما واختار أبو القاسم الصفار قول زفر.
ومقتضى ما قدمنا في باب المهر من قول طائفة من المشايخ وهو الوجه أنها لو تزوجت عالمة بأنها حاضت ثلاث حيض بعد وطئه كان صحيحا فيما بينه وبين الله تعالى إنما اشتراط كونها بعد الترك في القضاء.
حاشية الشلبي على تبيين الحقائق (3/ 33) المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة:
وإذا وطئها مرة بعد الفرقة يجب الحد لعدم الشبهة، والوطء الأخير لا يوقف عليه لأنه يجوز أن يوجد غيره فلا يكون الذي قبله أخيرا، ولئن سلمنا على وقوف المرأة التي تعتد فنقول قد تمس الحاجة إلى وقوف غيرها نحو أختها وأربع سواها، ولا وقوف للغير فلما كان الوطء الأخير خفيا أقيم السبب الظاهر، وهو التمكن من الوطء حقيقة بشبهة النكاح مقام حقيقة الوطء ثم لما ارتفع ذلك التمكن بالفرقة وجبت العدة من ذلك الوقت.
الاختيار لتعليل المختار (3/ 175) دار الكتب العلمية – بيروت:
قال: (وابتداء عدة النكاح الفاسد عقيب التفريق أو عزمه على ترك الوطء) ، وقال زفر: من آخر الوطئات لأن الوطء هو الموجب للعدة. ولنا أن التمكين من الوطء على وجه الشبهة أقيم مقام حقيقة الوطء لخفائه فيجعل واطئا حكما إلى حالة التفريق أو عزم الترك فتجب العدة من حين انقطاع الوطء حقيقة وشرعا أخذا بالاحتياط.
العناية شرح الهداية (4/ 330) دار الفكر،بيروت:
وقوله (ولأن التمكن على وجه الشبهة) دليل آخر. وتقريره أن حقيقة الوطء أمر خفي له سبب ظاهر وهو التمكن من الوطء على وجه الشبهة، وكل أمر خفي له سبب ظاهر يقام السبب مقامه ويدار عليه الحكم، فالتمكن من الوطء على وجه الشبهة يقوم مقام حقيقة الوطء، وإذا قام مقامها فمهما كان التمكن باقيا كان الوطء باقيا فلا يتعين آخر الوطآت إذ التمكن باق بعد كل وطأة فرضت فلا بد من المتاركة أو العزم ليرتفع التمكن فيتعين آخر الوطآت.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

11/ربيع الثانی 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب