021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تعمیرسے پہلے دکان کا کرایہ وصول کرنا
78125اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے جدید مسائل

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

مفتی صاحب!میں نے ایک غیر تعمیر شدہ پلازہ میں دکان خریدی جس کی قیمت ایک کروڑ 64 لاکھ روپے ہیں۔ دکان 2 سے 3 سال کے عرصے میں تیار ہو گی۔ اس عرصے میں مجھے دکان کا ماہانہ کرایہ 82 ہزار روپے ملتا رہے گا۔ معاہدہ کو ایک سال ہو چکا ہے اور 82 ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے میں ایک سال کا کرایہ بھی وصول کر چکا ہوں۔اب ایک شخص نے بتایا کہ یہ سود ہے جبکہ دوسرا شخص یہ کہتا ہے کہ یہ ڈسکاؤنٹ ہے جو پلازہ بنانے والے کی طرف سے مل رہا ہے اور کچھ لوگ اس کو باقاعدہ معاہدے میں بھی کرایہ کی بجائے ڈسکاؤنٹ کے نام سے لکھتے ہیں۔

1۔ کیا یہ ڈسکاؤنٹ یا کرایہ لینا جائز ہے؟

2۔ اگر جائز نہیں تو اصل معاہدے کی کیا حیثیت ہے؟

3۔ اگر یہ معاہدہ جائز نہیں تو اس معاہدے کو کیسے درست کیا جائے ؟

4۔ ایک سال کی رقم جو کرایہ کے نام پر میں وصول کر چکا ہوں اس کا کیا کیا حکم ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زیر تعمیر بلڈنگ میں نقشہ دیکھ کر  دوکان/ فلیٹ   کی بکنگ کرنا عقد استصناع  کے طور پر جائز ہے اور اس عقد میں جب تک وہ  چیز مستصنع(آرڈر دینے والے) کے  قبضہ میں نہ آجائے  اس میں اس کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی ،لہذا اسے کرایہ پر  نہیں دیا جاسکتا  اور نہ اس کا کرایہ وصول کیا جاسکتا ہے۔

البتہ اگر باہمی طور پر قیمت طے ہونے کے بعد، خریدار کی جانب سے یکمشت ادائیگی پرپلازہ مالک، قیمت میں کمی کرکے،ماہانہ طور پریہ ڈسکاؤنٹ  دیتا ہے،تویہ  اضافی رقم سود نہیں ہے، بلکہ اسے پلازہ مالک کی طرف سے قیمت میں کمی(حط ثمن) قرار دیا جاسکتا ہے، لہذا مذکورہ صورت میں پلازہ مالک کی طرف سے واپس کیے جانے والے پیسے

خریدار  کیلئے لینے کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع (5/2):
هو (اي الإستصناع) عقد على مبيع في الذمة شرط فيه العمل۔ 
وحكم الاستصناع فهو ثبوت الملك للمستصنع في العين المبيعة في الذمة وثبوت الملك للصانع في الثمن ملكا غير لازم۔  
المعاییر الشرعیۃ: (الاستصناع و الاستصناع الموازی، 7/6(:
یجوز ان یتضمن عقد الاستصناع شرط جزائیا لتعویض المستصنع عن تاخیر التسلیم بمبلغ یتفق علیہ الطرفان اذا لم یکن التاخیر ننتیجۃ لظروف قاھرۃ او طارئۃ۔
الهداية شرح البداية (3/60):
قال ويجوز للمشتري أن يزيد للبائع في الثمن ويجوز للبائع أن يزيد للمشتري في المبيع ويجوز أن يحط من الثمن ويتعلق الاستحقاق بجميع ذلك فالزيادة والحط يلتحقان بأصل العقد عندنا۔ 

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

13/ربیع الثانی1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب