021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹوں کو رہائش کے لئے دی گئیں جگہوں کے حوالے سے اختلاف کا حکم
78131دعوی گواہی کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

ہمارے والد حافظ عبدالستار بکر کا انتقال19 اگست 2020 میں ہوا،ہمارا گھرانہ والدین،چار بھائیوں اور دو بہنوں پر مشتمل تھا،سب سے پہلے 2007 میں ہماری والدہ کا انتقال ہوا،اس کے بعد 2011 میں ہمارے ایک بھائی کی شہادت ہوئی اور پھر 2020 میں والد صاحب کا انتقال ہوا،ہم سب بہن بھائی شادی شدہ ہیں،بہنیں اپنے شوہروں کے گھروں میں رہتی ہیں،چاروں بھائی اپنی فیملیوں کے ساتھ والد صاحب کے ڈیڑھ پلاٹ پر مشتمل مکان میں والدین کے ساتھ رہائش پذیر تھے،ان کی حیات میں بھی اور ان کی وفات کے بعد بھی تاحال اسی مکان میں رہائش پذیر ہیں،نیز شہید بھائی کی فیملی بھی اسی مکان میں رہائش پذیر ہے۔

والدین نے اپنی حیات میں یکے بعد دیگرے اسی مکان میں الگ الگ رہائشی جگہوں کا تعین کیا اور رہنے کے لئے ہم بھائیوں کے حوالے کردیں،داخلی دروازے اس ترتیب سے تھے کہ والدین گھر کے اندر سے ہی ہر بھائی کے یعنی بیٹوں کے گھر با آسانی آنا چاہیں تو آسکتے تھے اور والدین اپنی حیات میں جب چاہتے بغیر کسی روک ٹوک کے اپنا گھر سمجھ کر آتے بھی رہتے تھے۔

واضح رہے کہ ہم بھائی والدین کے منتخب کردہ گھر کے جن حصوں میں رہائش پذیر ہیں اس کی تعمیرات میں والدین نے بھی رقم خرچ کی تھی اور ہم بھائیوں نے بھی تعمیرات میں رقم ملائی تھی،ہم بھائی اپنی کمائی والدہ کو دیتے تھے جو کلی اختیارات کے ساتھ دی جاتی تھی اور والد صاحب بھی گھر چلانے کے اخراجات والدہ کے حوالے کرتے تھے،اس طرح والدین نے ہم بہن بھائیوں کے شادیوں کے اخراجات بھی اٹھائے اور تعمیرات میں تمام بھائیوں نے الگ سے بھی اپنی رقم لگائی۔

میرے بڑے بھائی نے والد صاحب کی زندگی میں ایک فتوی حاصل کیا تھا دارالافتاء سے،اس استفتاء کی کاپی اس کے ساتھ لف کی جارہی ہے،اس فتوی کو بڑے بھائی نے والد صاحب کی وفات کے بعد ورثہ کے سامنے ظاہر کیا،جس میں بڑے بھائی نے دعوی کیا کہ والدین نے گھر میں جس بھائی کے لئے جو جگہ متعین و منتخب کرکے دی ہے یہ مالکانہ حقوق کے ساتھ دی ہے جس کا بھائی کے پاس نہ کوئی تحریری ثبوت ہے اور نہ گواہان،حالانکہ مذکورہ طرز پر بھائیوں کی رہائش کے لئے جگہوں کا تعین ہماری والدہ نے کیا تھا اور اس طرز پر بھائیوں کی رہائش تاحال مکمل نہیں ہوسکی،بڑے بھائی نے استفتاء میں جو والدین کی تقسیم لکھ کر فتوی لیا ہے وہ تجویز ہماری والدہ کی تھی،والد صاحب کا اس پر کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا تھا۔

والدین نے کبھی بھی چاروں بھائیوں کو جمع کرکے یہ نہیں کہا کہ معین کردہ رہائش آپ کو ہبہ کے طور پر یا مالک بناکر دی ہے اور نہ ہی علیحدہ علیحدہ بلاکر اس قسم کی کوئی وضاحت کی۔

پورے مکان پر وفات تک والد صاحب کا تصرف رہا ہے،جب تک صحت نے ساتھ دیا پورے ڈیڑھ پلاٹ پر مشتمل مکان کے جس حصے  میں چاہتے بغیر کسی روک ٹوک کے اپنا گھر سمجھ کر آتے جاتے رہتے،وفات تک پورے گھر کو اپنی ملکیت بتلاتے رہے جس کی وضاحت منسلک وصیت نامے میں موجود ہے۔

ہمارا بڑا بھائی چھوٹے بھائی کے حوالے سے جو قصہ/معاملہ ذکر کررہا ہے، جو بھائی کے منسلک استفتا میں مذکور ہے، چھوٹا بھائی اس قصے/معاملے کی تصدیق نہیں کررہا،نیز بڑے بھائی نے مذکورہ تقسیم اور فیصلوں کو والد کی طرف منسوب کیا ہے،جبکہ دیگر ورثہ اس بابت لاعلمی کا اظہار کررہے ہیں۔

اب درج بالا تفصیل کے بعد سوال یہ ہے کہ:

1. کیا ہمارے بڑے بھائی کا دعوی درست مانا جائے گا؟ جو منسلک استفتا میں مذکور ہے اور ورثہ میں تقسیم اس کے دعوے کے مطابق ہوگی؟

 نوٹ: بڑے بھائی کے جتنے دعوے تقسیم حقیقی/ملکیتی اعتبار سے ہیں،دیگر ورثہ اس کی تصدیق نہیں کررہے،اس کے پاس نہ تحریری ثبوت ہے اور نہ ہی کوئی گواہ ہے۔

2. والد صاحب نے جو وصیت نامہ تحریر کیا ہے،جس کی کاپی اس استفتاء کے ساتھ منسلک ہے، کیا اس وصیت کے مطابق ورثہ پر ترکے کی تقسیم لازم ہوگی ؟

تنقیح:سائل نے بتایا کہ بھائیوں نے تعمیرات میں جو رقم خرچ کی تھی وہ ذاتی ملکیت کی نیت سے نہیں کی،بلکہ اکثر اوقات تو رقم والدین کے حوالے کی اور والدین نے پھر تعمیرات پر خرچ کی،جبکہ کچھ تعمیرات بھائیوں نے اپنی مرضی سے کروائیں،لیکن ان کے حوالے سے بھی پہلے والد کو اعتماد میں لیا گیا،پھر تعمیرات کروائی گئیں۔

نیز والد نے وصیت نامہ مارچ 2020 میں تحریر کیا،جبکہ ان کا انتقال 19 اگست 2020 کو ہوا،جبکہ رہائش کے لئے مذکورہ جگہیں بیٹوں کو اس سے بہت پہلے دی گئیں تھیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ مفتی غیب کا علم نہیں جانتا،لہذا وہ دی گئی معلومات کے مطابق جواب لکھتا ہے،لہذا ذیل میں دیئے گئے جواب کا مدار آپ کی دی گئی معلومات کے صحیح ہونے پر ہے،اگر حقیقی صورتحال اس سے مختلف ہو تو پھر اس جواب کا اس پر انطباق ضروری نہیں۔

لہذا اگر سوال میں ذکر کی گئی تفصیل حقیقت پر مبنی ہے اور آپ کے والد نے آپ بھائیوں کو مذکورہ پلاٹ میں رہائش کے لئے الگ الگ جگہیں ہبہ کے طور پر نہیں دی تھیں،بلکہ صرف رہائش اختیار کرنے کے لئے دی تھیں،جیسا کہ ساتھ لف کئے گئے وصیت نامے میں اس کی وضاحت موجود ہے تو پھر یہ سارے مکانات وفات تک انہیں کی ملکیت تھے اور ان کی وفات کے بعد اب ان کے ورثہ میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوں گے۔

اگرچہ مذکورہ صورت میں آپ بھائیوں کے درمیان اس حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے،لیکن چونکہ آپ لوگوں کو یہ جگہیں فراہم کرنے والے آپ کے والد تھے،اس لئے اس بارے میں ان کا قول شرعا معتبر ہوگا اور انہوں نے وصیت نامے میں (جو مذکورہ جگہیں بیٹوں کو دینے کے بعد تحریر کیا گیا ہے)اس کی تصریح کردی ہے کہ یہ ڈیڑھ پلاٹ ان کی ملکیت ہے،جس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے یہ جگہیں بطور ہبہ اپنے بیٹوں کو نہیں دی تھیں،لہذا والد کے وصیت نامے کی موجودگی میں بڑے بیٹے کا ہبہ کا دعوی معتبر نہیں ہوگا۔

تاہم موجودہ دور چونکہ مکر و فریب کا دور ہے، سچے اور جھوٹے کاغذات کی تمییز مشکل ہوگئی ہے، لہٰذا اس وصیت نامے پر اگر کسی معتبروجوہ کی بناء پرآپ کے بھائی کی جانب سے شک و شبہ کا اظہار کیا جائے تو  پھر اس کے شرعی حجت ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے بارے میں تحقیق کی جائے اور اس پر باقاعدہ گواہ بھی موجود ہوں۔

قانونی طریقے سے جانچ پڑتال کے بعد وصیت نامے کے اصلی اور قانون کے مطابق ہونے کی صورت میں آپ کے بھائی کا اس سے انکار معتبر نہیں ہوگا،البتہ اگر قانونی طریقے سے چانچ پڑتال کے بعد اس وصیت نامے کا جعلی ہونا ثابت ہوجائے تو پھر جو بھائی ہبہ کا دعوی کررہا ہے اس کے ذمے اپنے دعوی کو کم از کم دو صالح اور عادل مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی سے ثابت کرنا پڑے گا،اگر اس کے پاس گواہ نہ ہوں تو پھر جو بھائی ہبہ کا انکار کرر ہے ہیں ان سے یوں قسم لی جائے گی کہ اللہ کی قسم ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے والد نے مذکورہ جگہیں ہم بھائیوں کو بطورِ ہبہ دی ہیں۔

حوالہ جات
"الأشباه والنظائر لابن نجيم" (ص: 226):
"القول للمملك في جهة التمليك، فلو كان عليه دينان من جنس واحد فدفع شيئا فالتعيين للدافع إلا إذا كان من جنسين لم يصح تعيينه من خلاف جنسه، ولو كان واحدا فأدى شيئا وقال هذا من نصفه، فإن كان التعيين مفيدا بأن كان أحدهما حالا أو به رهن أو كفيل والآخر لا، صح، وإلا فلا.
ولوادعى المشتري أن المدفوع من الثمن وقال الدلال من الأجرة فالقول للمشتري ولو ادعى الزوج أن المدفوع من المهر، وقالت هدية فالقول له إلا في المهيإ للأكل كذا في جامع الفصولين".
"القواعد الفقهية وتطبيقاتها في المذاهب الأربعة" (1/ 122):
"وقبلوا قول المملِّك في بيان جهة التمليك، وقول الدافع في بيان جهة الدفع، لأنهما أدرى بها ممن تلقى الملك أو القابض، فلو ادعى المملك القرض، وادعى الآخر الهبة مثلاً فالقول قول المملِّك".
"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام" (4/ 482):
"[ (المادة 1738) يعمل بسجلات المحاكم إذا كانت قد ضبطت سالمة من الحيلة والفساد]
المادة (1738) - (يعمل أيضا بسجلات المحاكم إذا كانت قد ضبطت سالمة من الحيلة والفساد على الوجه الذي يذكر في كتاب القضاء) .
يعمل أيضا بسجلات المحاكم الممسوكة بصورة سالمة من الحيلة والفساد، وبتعبير آخر أي من التزوير والتصنيع كما سيبين ذلك في المادة (1814) من كتاب القضاء.
أما إذا لم تكن سجلات المحاكم بريئة من التزوير والتصنيع فيطلب شهود لإثبات مضمونها ويشهد الشهود على مضمون الإعلام".
"الدر المختار " (5/ 465):
"(و) نصابها (لغيرها من الحقوق سواء كان) الحق (مالا أو غيره كنكاح وطلاق ووكالة ووصية واستهلال صبي) ولو (للإرث رجلان) إلا في حوادث صبيان المكتب فإنه يقبل فيها شهادة المعلم منفردا قهستاني عن التجنيس (أو رجل وامرأتان) ولا يفرق بينهما {فتذكر إحداهما الأخرى} [البقرة: 282] ولا تقبل شهادة أربع بلا رجل".
"الدر المختار " (5/ 552):
"(التحليف على فعل نفسه يكون على البتات) أي القطع بأنه ليس كذلك (و) التحليف (على فعل غيره) يكون (على العلم) أي إنه لا يعلم أنه كذلك لعدم علمه بما فعل غيره ظاهرا".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

13/ربیع الثانی1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب