021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ڈیجیٹل تصویر کا حکم
78255جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہر انسان کے پاس موبائل ہے،سوال یہ ہے کہ کیا موبائل  میںفوٹو   یا   ویڈیو بنانا جائز ہے یا نہیں؟کیا یہ گناہ کبیرہ ہے یا گناہ صغیرہ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ڈیجیٹل تصویر کے بارے میں موجودہ دور کے علماء کی مختلف آراء  ہیں  جن کا خلاصہ یہ تین آراء ہیں :

ا ۔ یہ ناجائز تصویر کے حکم میں داخل نہیں ، بلکہ پانی یا آئینہ میں دکھائی دینے والے عکس کی مانند ہے ، لہذا جس چیز کا عکس دیکھنا جائز ہے اس کی ویڈیو یا تصویر بنانا اور دیکھنا بھی جائز ہے اور جس چیز کا عکس دیکھنا جائز نہیں اس کی ویڈیو یا تصویر بنانا اور دیکھنا بھی جائز نہیں ۔

 ۲۔ اس کا بھی وہی حکم ہے جو عام پر نٹ شدہ تصویر کا ہے ، لہذا صرف ضرورت کے وقت جائز ہے ۔

۳۔ ڈیجیٹل تصویر بھی اگر چہ اپنی حقیقت کے لحاظ سے تصویر ہی ہے ، البتہ اس کے تصویر ہونے یا نہ ہونے میں چونکہ ایک سے زیادہ فقہی آراء موجود ہیں ، اس لیے صرف شرعی ضرورت اور معتبر دینی یاد نیوی مصلحت کی خاطر ایسی چیزوں اور مناظر کی تصویر اور ویڈیو بنانے کی گنجائش ہے جن میں تصویر ہونے کے علاوہ کوئی اور حرام پہلو مثلا عر یا نیت ، موسیقی یا غیر محرم کی تصاویر وغیرہ نہ ہوں ۔

ایسی صورت حال میں عوام کے لیے یہ حکم ہے کہ عام مسائل میں جن مفتیان کرام کے علم و تقوی پر اعتماد کرتے ہیں ،اس مسئلے میں بھی انہی کی رائے پر عمل کر یں اور اس طرح کے مختلف فیہ مسائل کو آپس میں اختلاف و انتشار کی بنیاد بنانے سے گریز کریں ۔البتہ احتیاط بہر حال دوسری رائے پر عمل کرنے میں ہے ، جبکہ ہمارے نزدیک تیسری رائے راجح ہے ۔

حوالہ جات

محمد عمر الیاس

دارالافتاء جامعۃالرشید،کراچی

20 ربیع الثانی،1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر بن محمد الیاس

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب