021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وراثت و حج سے متعلق ایک مشورہ
78242حج کے احکام ومسائلحج کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

تلخیص سوال:  میرا ایک فلیٹ ہے جسے میں فروخت کر کے دو کام کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے ان کے حوالے سے مشورہ درکار ہے:

1.     اہلیہ کے ہمراہ حج کی ادائیگی کروں، چونکہ مجھے سانس کا مسئلہ بھی ہے تو کیا کسی ایک بیٹے کو ساتھ لے جاؤں؟

2.     باقی بچ جانے والی رقم سے موجودہ مکان کی چھت پر دو پورشن بنا کر تینوں بیٹوں کو مشروط طور پر الگ پورشن کا مالک بناتے ہوئے ان کا چولہا الگ کر دوں اور شرط یہ ہو کہ "جیسے ہی مکان کی تعمیر مکمل ہو جائے اور تمہارے چولہے الگ ہو جائیں تو مکان کی قیمت لگوا کر کل قیمت کا آٹھواں حصہ اپنی والدہ کے لیے نکال لینا اور بقیہ رقم کے نو حصے کر لینا۔ دو دو حصے تم تینوں بھائیوں کے اور ایک ایک حصہ تمہاری تینوں بہنوں کا ہوگا۔ میری وفات کے بعد اپنی والدہ اور تینوں بہنوں کو وراثت کا حصہ پوری دیانت داری کے ساتھ پہنچانے کے پابند ہوگے۔

دوسرا ممکنہ طریقہ یہ ہے کہ بچ جانے والی رقم سے پورشن بنا کر اپنی زندگی میں ہی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیدار کی تقسیم ورثاء کے مابین برابر کر دوں اور انہیں اس کا مالک بھی بنا دوں۔ اس صورت میں مجھے اپنا وہ مکان بھی فروخت کرنا پڑے گا جس میں ہم ابھی رہتے ہیں، اس لیے مجھے پہلی صورت بہتر لگتی ہے۔  شریعت مطہرہ کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ حج و وراثت کی کون سی صورت بہتر ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکور صورت میں اگر آپ پر حج فرض ہے تو اولاً آپ پر وہ ادا کرنا لازم ہے۔ اس کے بعد باقی ماندہ منقولہ و غیر منقولہ جائیداد میں آپ کو دونوں اختیارات حاصل ہیں، چاہیں تو اپنے پاس رکھیں اور بعد از وفات وراثت تقسیم ہو اور چاہیں تو ابھی اپنی اولاد میں تمام حصے برابر تقسیم کر کے انہیں قبضہ بھی دے دیں۔ البتہ دو چیزیں مد نظر رکھی جائیں:

1.     وراثت کا تعلق آپ کی وفات سے ہے، نہ کہ مکان کی تعمیر سے۔ لہذا اگر آپ کی وفات سے پہلے مکان مکمل تعمیر ہو چکا ہو تو قیمت بعد از وفات لگوائی جائے گی اور اگر وفات کے وقت مکان مکمل تعمیر نہ ہوا ہو تو قیمت اسی حالت میں لگوائی جائے گی اور وراثت شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کی جائے گی۔

2.     نبی کریم ﷺ نے "فقر" سے پناہ مانگی ہے ۔دوسری صورت میں تمام جائیداد تقسیم کرنے کے بعد آپ کی ملکیت میں کچھ نہیں رہے گا تو عین ممکن ہے کہ فقر کی صورت حال معاشی مسائل تک پہنچا دے، خصوصاً جب کہ آج کل مشاہدات بھی یہی ہیں کہ بعد تقسیم جائیداد اولاد ماں باپ کی جانب سے لا پرواہ ہو جاتی ہے۔ لہذا اگر دوسری صورت اختیار کریں تو اپنے پاس اس قدر مال ضرور رکھیں جو آپ کی ضروریات کے لیے کافی ہو۔

حوالہ جات
عن مسلم بن أبي بكرة، قال: كان أبي يقول في دبر الصلاة: "اللهم إني أعوذ بك من الكفر والفقر، وعذاب القبر"، فكنت أقولهن، فقال أبي: أي بني، عمن أخذت هذا؟ قلت عنك، قال: "إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقولهن في دبر الصلاة"
(السنن للنسائی، 3/73، ط: المطبوعات الاسلامیۃ، حدیث: 1347)
"(ولا يمنع الشخص من تصرفه في ملكه إلا إذا كان الضرر) بجاره ضررا (بينا) فيمنع من ذلك، وعليه الفتوى: بزازية."
(الدر المختار شرح تنویر الابصار، 1/477، دار الکتب العلمیۃ)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

22/ ربیع الثانی 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے