021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین طلاق کے بعد اکٹھے رہنے کا حکم
78262طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

اب جب شوہر کے گھر والوں سے بات کی جارہی ہے تو وہ مان نہیں رہے، بلکہ کہتے ہیں کہ پہلے جب بیس دن ساتھ رہی تو اسی وقت صلح ہو چکی تھی، نیز انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک دن میں جتنی بار بھی طلاق دی جائے ایک ہی طلاق ہوتی ہے۔ ازراہ کرم شریعت کی روشنی میں بتایے کہ کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟ میں یہ سب کچھ حلفیہ بیان لکھا ہے۔

وضاحت: سائل نے بتایا کہ دوسری مرتبہ شوہر نے شرط کے الفاظ ذکر کیے بغیر کہا تھا کہ اس کو طلاق طلاق طلاق۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں جب آپ کے شوہر نےآپ کو سوال میں ذکر کیے گئے الفاظ " طلاق ، طلاق ، طلاق،" کہے تو اسی وقت آپ پر تین طلاقیں واقع ہو کر حرمتِ مغلظہ ثابت ہو چکی تھی، اس کے بعدآپ  دونوں کا میاں بیوی کی طرح  اکٹھے رہنا ہرگز جائز نہیں تھا،کیونکہ تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہو سکتا اور  اسی حالت میں دوبارہ نکاح  کرنا بھی جائز نہیں، بلکہ اب حکم یہ ہے کہ  آپ عدت ختم ہونے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں شرعاً بااختیار ہیں۔ یہ بات یاد رہے کہ مذکورہ صورت میں آپ پر دو عدتیں واجب ہوں گی، پہلی عدتِ طلاق اور دوسری شبہ کی وجہ سے ہونے والی ہمبستری کی عدت۔ البتہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ ایسی صورت میں دونوں عدتوں میں تداخل ہو گا، تداخل کا مطلب یہ ہے کہ طلاق کی عدت کےدوران اگر ہمبستری کی عدت شروع ہوجائے تو اس دوران آنے والی ماہواری دونوں عدتوں سے شمار ہوگی اور پھر طلاق کی عدت ختم ہونے کے بعد خاتون کو ہمبستری کی بقیہ عدت مکمل کرنا ہوگی،اس طرح دونوں مکمل کرنے کے بعد آپ دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہیں۔

 جہاں تک گزشتہ شوہر سے دوبارہ  نکاح کرنے کا تعلق ہے تو  شرعی اعتبار سے فی الحال اس سے نکاح نہیں ہو سکتا، البتہ اگر عورت عدت گزارنے کے بعد کسی اور شخص سے نکاح کرے اور وہ خاوند عورت سے ہمبستری بھی کرے، پھر وہ اپنی رضامندی سے عورت کو طلاق دیدےیا وہ وفات پا جائے تو اُس خاوند کی عدت گزارنے کے بعد فریقین باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں،  ورنہ نہیں۔

واضح رہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کے تین ہونے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، ائمہ اربعہ اور امت کے جمہور مجتہدین، محدثین، فقہائے کرام، علمائے کرام اور  اہل السنت والجماعت کا اتفاق ہے، خود امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی  اپنی کتاب صحیح البخاری میں تین طلاق کے تین ہونے پر روایات نقل کی ہیں۔لہذا یہ کہنا کہ ایک دن میں جتنی بھی طلاقیں دی جائیں ایک واقع ہوتی ہے، بالکل غلط، من گھڑت اور خلافِ شرع بات ہے،  نیز شرعاً طلاق کا کوئی کفارہ واجب نہیں ہوتا، لہذا تین طلاق کے بعد آپ دونوں کا  اکٹھے رہنا اور ازدواجی  تعلقات قائم کرنا انتہائی کبیرہ گناہ تھا، جس پر آپ دونوں کو  اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ واستغفار کرنا لازم ہے، نیز تین طلاق کے بعد مرد کا دوبارہ بار بار طلاق کے الفاظ کہنا اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ مذاق اور انتہائی جہالت کی بات ہے، جس پر احادیثِ مبارکہ میں سخت تنبیہ فرمائی گئی ہے، لہذا اس کو اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر معافی مانگنا اور آئندہ ایسی  قبیح حرکت سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

حوالہ جات
            صحيح البخاري (7/ 43، رقم الحدیث: 5261) دار طوق النجاة:
حدثني محمد بن بشار، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال: حدثني القاسم بن محمد، عن عائشة، أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول»
             صحيح البخاري (7/ 43، رقم الحدیث: 5264) دار طوق النجاة:
وقال الليث: حدثني نافع، قال: كان ابن عمر، إذا سئل عمن طلق ثلاثا، قال: «لو طلقت مرة أو مرتين، فإن النبي صلى الله عليه وسلم أمرني بهذا، فإن طلقتها ثلاثا حرمت حتى تنكح زوجا غيرك.
             سنن أبي داود (2/ 259) المكتبة العصرية، صيدا – بيروت:
حدثنا أحمد بن محمد المروزي، حدثني علي بن حسين بن واقد، عن أبيه، عن يزيد النحوي، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: {والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء، ولا يحل لهن أن يكتمن ما خلق الله في أرحامهن} [البقرة: 228] الآية، " وذلك أن الرجل كان إذا طلق امرأته، فهو أحق برجعتها، وإن طلقها ثلاثا، فنسخ ذلك، وقال: {الطلاق مرتان} [البقرة: 229]
            الفتاوى الهندية (1 / 473) دار الفكر، بیروت:
وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز۔
          الهداية في شرح بداية المبتدي (2/ 276) دار احياء التراث العربي – بيروت:
" وإذا طلق الرجل امرأته في حالة الحيض لم تعتد بالحيضة التي وقع فيها الطلاق " لأن العدة مقدرة بثلاث حيض كوامل فلا ينقص عنها. " وإذا وطئت المعتدة بشبهة فعليها عدة أخرى وتداخلت العدتان ويكون ما تراه المرأة من الحيض محتسبا منهما جميعا وإذا انقضت العدة الأولى ولم تكمل الثانية فعليها تمام العدة الثانية " وهذا عندنا وقال الشافعي رحمه الله لا تتداخلان لأن المقصود هو العبادة فإنها عبادة كف عن التزوج والخروج فلا تتداخلان كالصومين في يوم واحد ولنا أن المقصود التعرف عن فراغ الرحم وقد حصل بالواحدة فتتداخلان ومعنى العبادة تابع ألا ترى أنها تنقضي بدون علمها ومع تركها الكف.
الإقناع في مسائل الإجماع (2/ 36) علي بن محمد بن عبد الملك الكتامي الحميري الفاسي، أبو الحسن ابن القطان (المتوفى: 628هـ) الفاروق الحديثة للطباعة والنشر:
2340 - وقول ابن عباس للمطلق مائة تطليقة: طلقت منك بثلاث، وسبع وتسعون اتخذت آيات الله بها هزوا. وقول ابن مسعود للمطلق ثماني تطليقات: قد بانت منه، كما أفتى إلي آخر كلامه ليس في الخبرين ذكر البتة، وإنما فيهما وقوع الثلاث مجتمعات ولزومخا ولا خلاف بين أئمة الفتوى بالأمصار فيه وجمهور السلف، والخلاف فيه شاذ تعلق به أهل البدع ومن لا يلتفت لشذوذه عن جماعة، لا يجوز على مثلها التواطؤ على تحريف الكتاب والسنة. وكان عمر إذا أتي برجل طلق امرأته ثلاثا في مجلس واحد أوجعه ضربا وفرق بينهما ونحوه، وعن عمران بن حصين قال: أثم بربه وحرمت عليه امرأته، وقاله ابن عمرن وما أعلم لهم مخالفا من الصحابة.
2341 - وأجمع أهل العلم إذا طلق امرأته ثلاثا وهو صحيح ثم مات أو ماتت في عدتها أو بعد العدة لم يتوارثا.
2342 - ولا خلاف بين أهل العلم أنها إن كانت مدخولا بها فقال لها: أنت طالق أنت طالق أنت طالق سكت أو لم يسكت فيما بينها أنها طالق ثلاثا.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

  24/ربيع الثانی 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب