021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سیّدکا زکوة کی رقم سے علاج کروانے کا حکم
78313زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

بندہ کی نظر بہت کمزور ہے، ڈاکٹر نے آپریشن کا مشورہ دیا ہے، آپریشن پر کم از کم خرچ ساٹھ ہزار روپے ہے، ڈاکٹر عالمگیر ہسپتال سے علاج کروانا چاہتا ہے،  جبکہ عالمگیر ٹرسٹ میں زکوة اور صدقاتِ واجبہ کی رقم ہوتی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا میں زکوة وغیرہ کی رقم سے اپنا علاج کروا سکتا ہوں؟ جبکہ میں ایک طالب علم ہوں اور علاج کے لیے وسائل نہیں ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سادات گھرانے سے تعلق رکھنا یقیناً بہت بڑی سعادت کی بات ہے، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان سب سے اعلیٰ اور اشرف ہے، اسی لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان کے افراد کے لیے زکوة کو حرام قرار دیا ہے اور یہ سادات کے لیے باعثِ افتخار چیز ہے،چنانچہ بہت سی صحیح اور صریح احادیث میں سادات کو زکوة اور صدقاتِ واجبہ کی رقوم استعمال کرنے سے منع فرمایا گیا ہے، اس لیے آپ کے لیے زکوة کی رقم سے علاج کروانا شرعاً جائز نہیں۔

اس کی متبادل درج ذیل دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

پہلی صورت: ہرٹرسٹ میں زکوة اور صدقاتِ واجبہ کے علاوہ عطیہ اور نفلی صدقات کی رقوم بھی آتی ہیں اور سید کے لیے ان دونوں رقوم کا استعمال کرنا جائز اور حلال ہے، لہذا آپ ٹرسٹ کی انتظامیہ کو اپنی صورتِ حال بتا کر  عطیہ ونفلی صدقات کی رقم  سے علاج کروا سکتے ہیں۔

دوسری صورت: البتہ اگر  ہسپتال کی انتظامیہ عطیات اور نفلی صدقات کی مد سے علاج کرنے پر تیار نہ ہو تو ایسی صورت میں یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے کہ کوئی مالدار کسی سمجھدارغیرسیدمستحقِ زکوة شخص کو زکوة کی رقم اس طرح  مالک بناکر اس کے قبضے میں دے کہ وہ جس طرح چاہے اسے صرف کرنے میں خود مختار و آزاد ہو، اور اسے یہ مصرف اور تفصیل بھی بتادی جائے کہ فلاں سیدطالب علم علاج کے سخت محتاج ہیں اور سادات کو زکات دینے کی اجازت نہیں ہے، اگر آپ اس رقم میں سے ان کا تعاون کرلیں تو بہتر ہوگا اور اللہ تعالیٰ اس پر آپ کو اجرِ عظیم عطا فرمائیں گے۔

  اس کے بعد وہ اپنی خوشی سے اور کسی بھی قسم کے دباؤ کے بغیر اس رقم سے آپ کو مالک بنا کر وہ رقم دے دے  تو یہ جائز ہے۔ کیونکہ اس صورت میں آپ کو جانے والی رقم آپ کے حق میں شرعاً زکوة شمار نہیں ہوگی، بلکہ وہ ملک تبدیل ہونے کی وجہ سے مستحقِ زکوة شخص کی طرف سے عطیہ کہلائے گی اور عطیہ کا استعمال سید کے لیے جائز ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار مع رد المحتار(2 / 351) دار الفكر-بيروت:
 (وجازت التطوعات من الصدقات و) غلة (الأوقاف لهم) أي لبني هاشم سواء سماهم الواقف أو لا على ما هو الحق كما حققه في الفتح لكن في السراج وغيره إن سماهم جاز وإلا لا.
 قلت: وجعله محشي الأشباه  محمل القولين ثم نقل صاحب البحر عن المبسوط وهل تحل الصدقة لسائر الأنبيا قيل نعم وهذه خصوصية لنبينا صلى الله عليه وسلم، وقيل: لا بل تحل لقرابتهم فهي خصوصية لقرابة نبينا إكراما وإظهارا لفضيلته صلى الله عليه وسلم فليحفظ.
    المبسوط للسرخسي (3 / 12) دار المعرفة - بيروت:
وكذلك لو صرفها إلى هاشمي أو مولى هاشمي وهو يعلم بحاله لا يجوز لقوله صلى الله عليه وسلم: "لا تحل الصدقة لمحمد ولا لآل محمد". وعن ا بن عباس رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم استعمل الأرقم بن أبي الأرقم على الصدقات فاستتبع أبا رافع فجاء معه فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "يا أبا رافع إن الله تعالى كره لبني هاشم غسالة الناس وإن مولى القوم من أنفسهم"، وهذا في الواجبات فأما في التطوعات والأوقاف فيجوز الصرف إليهم وذلك مروي عن أبي يوسف ومحمد رحمهما الله تعالى في النوادر لأن في الواجب المؤدى يطهر نفسه بإسقاط الفرض فيتدنس المؤدى بمنزلة الماء المستعمل.وفي النفل يتبرع بما ليس عليه فلا يتدنس به المؤدى كمن تبرد بالماء". فقط والله أعلم.
الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 596) دار الكتب العلمية:
(ولو قضى به) بالولاء (لقوم أمه بعد خصومتهم مع قوم الاب في ولائه فهو) أي القضاء بما ذكر (تعجيز) لانه في فصل مجتهد فيه (وطاب لسيده وإن لم يكن مصرفا) للصدقة (ما أدى إليه من الصدقات فعجز) لتبدل الملك، وأصله حديث بريرة هي لك صدقة ولنا هدية (كما في وارث) شخص (فقير مات عن صدقة أخذها وارثه الغني، و) كما في (ابن سبيل أخذها ثم وصل إلى ماله وهي في يده) أي الزكاة، وكفقير استغنى وهي في يده فإنها تطيب له، بخلاف فقير أباح لغني أو هاشمي عين زكاة أخذها لا يحل لان الملك لم يتبدل.
حاشية الشلبي علی تبيين الحقائق (5/ 173) المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة:
(قوله «هو لها صدقة») والمعنى في ذلك أن الخبث باعتبار أنه من أوساخ الناس لا لعين المال فكان الخبث في الجهة فلم يبق معنى الوسخ بتبدل السبب؛ لأن المولى يتناوله بجهة غير الجهة التي تناوله المكاتب؛ لأن المولى يأخذه على أنه بدل الكتابة لا على أنه صدقة. اهـ. أتقاني (قوله وكانت مكاتبة) كذا هو في عبارة النهاية اهـ. وكتب ما نصه فيه نظر بل كانت حرة حينئذ اهـ من خط قارئ الهداية وكتب أيضا ما نصه قال الكاكي والحل بعد التبدل وقعت الإشارة النبوية إليه في حديث بريرة مع أن بريرة كانت مكاتبة اهـ (قوله؛ لأن الملك لم يتبدل) قال الأتقاني؛ لأن المباح له يتناوله على ملك المبيح. اهـ. (قوله ونظيره المشتري إذا اشترى شراء فاسدا) أي إذا أباحه للغير اهـ.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

24/ربيع الثانی 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب