021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پردہ اور ستر میں فرق اور عورت کے لیے پردہ کی حدود
78325جائز و ناجائزامور کا بیانپردے کے احکام

سوال

کیا پردہ اور ستر ایک ہی چیز ہے؟ عورت کے لیے پردہ کی کیا حدود ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پردہ عربی زبان کے لفظ "حجاب" کا ترجمہ ہے، حجاب کا حکم نامحرم مردوں اور عورتوں کو متوجہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے پردہ کریں، مردوں کا مردوں سے اور عورتوں کا عورتوں سے حجاب اور پردہ نہیں۔ جبکہ "ستر" کا مطلب جسم کے وہ اعضاء ہیں جنہیں کسی بھی دوسرے انسان کے سامنے کھولنا جائز نہیں، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، محرم ہو یا نا محرم؛ لہٰذا کوئی خاتون اپنا ستر کسی خاتون کے سامنے نہیں کھول سکتی، اگرچہ خاتون کا خاتون سے پردہ اور حجاب نہیں، اسی طرح مردوں کا مردوں سے پردہ نہیں ہوتا، لیکن کوئی مرد اپنا ستر کسی دوسرے مرد کے سامنے نہیں کھول سکتا۔ اسی طرح ستر ان اعضاء کے چھپانے کو کہا جاتا ہے جنہیں نماز میں ڈھانپنا ضروری ہوتا ہے۔ مرد اور عورت کے ستر کی مزید تفصیل بوقتِ ضرورت معلوم کی جاسکتی ہے۔ البتہ ستر کا لفظ بعض زبانوں (مثلا پشتو) میں عرف اور اصطلاح کی وجہ سے حجاب اور پردہ کے معنی میں بھی استعمال ہوجاتا ہے، جس میں کوئی حرج نہیں۔    

عورت کے لیے پردہ کی حدود اور درجات تین ہیں:-

 (1) گھر کی چار دیواری میں رہنا اور بلا ضرورت و حاجت اس سے باہر نہ نکلنا۔ شریعت کا اصل مزاج اور

منشا یہی ہے کہ عورت حتی الامکان گھر کی چار دیواری میں رہے، بلا ضرورت یاحاجت گھر سے باہر نہ نکلے۔  

(2) حاجت اور ضرورت کے لیے گھر سے باہر جاتے ہوئے ہاتھوں اور چہرے سمیت سر سے لے کر پیر تک اپنے پورے جسم کو برقعے یا کسی بڑے کپڑے سے اس طرح ڈھانک لے جس میں اعضاء نظر نہ آئیں، نہ ہی ان کی ساخت نمایاں ہو۔ اسی طرح اگر گھر وغیرہ میں نامحرم مرد بھی ہوں تو بھی عورت کے لیے یہی حکم ہے۔    

(3) ضرورت اور حاجت کے لیے گھر سے باہر جاتے ہوئے سر سے پیر تک اپنے پورے جسم کو برقعے یا کسی بڑے کپڑے سے اس طرح ڈھانک لے جس میں اعضاء نظر نہ آئیں، نہ ہی ان کی ساخت نمایاں ہو، البتہ چہرے اور ہاتھوں کو کھلا رکھے۔ اس تیسرے درجے کی اجازت دو شرائط کے ساتھ مشروط ہے، ایک یہ کہ چہرہ اور ہاتھ کھلے رکھنے کی حاجت ہو، دوسرا یہ کہ فتنہ کا خطرہ نہ ہو۔

اگر ایک ہی مکان میں متعدد گھرانے سکونت پذیر ہونے کی صورت میں مکمل پردہ کرنا دشوار ہو تو ایسی صورت میں اگر عورت اپنے پورے جسم کو ایسی موٹی چادر یا گھونگھٹ سے چھپا لے جس میں سر کے بال ،ہاتھ کی کلائیاں،بازو وغیرہ اعضاء چھپے  ہوئے ہوں، صرف چہرہ ، ہتھیلیاں اور دونوں پاؤں کھلے ہوئے ہوں تو اس کی گُنجائش ہے، اگر گھریلو کام کاج کی وجہ سے کلائی، یا ہاتھ کے کچھ حصے سے کپڑا ہٹانے کی ضرورت پیش آئے تو اس کی بھی گنجائش ہے، بشرطیکہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ البتہ اس میں بھی درجِ ذیل امور کا خیال رکھنا ضروری ہے:-

  • لباس چست نہ ہو، بلکہ ڈھیلا ڈھالا ہو۔
  • اپنی نظریں حتی الامکان نیچی رکھی جائیں۔
  • نامحرم کے ساتھ تنہائی ہر گز اختیارنہ کی جائے۔
  • بے تکلّفی  کی بات نہ کریں، صرف بقدرِ حاجت گفتگو کی جائے۔
  • مردحضرات جب گھر میں داخل ہوں تو اجازت لے کر یا دروازہ کھٹکاکر داخل ہوں، تاکہ خواتین ضروری پردہ کرلیں ۔
حوالہ جات
تكملة فتح الملهم(4/225):
إن للحجاب الشرعي المأمور به في الكتاب والسنة ثلاث درجات، بعضها فوق بعض فی الاحتجاب والاستتار، وکلها مذکورة فی الکتاب والسنة، ولم يتسخ منها شيئ، و لكنها مأمورة بها في أحوال مختلفة، وهي :
1-حجاب أشخاص النساءبالبيوت والجدر، والخدور والهوادج وأمثالها،بحيث لايري الرجال الأجانب شيئاًمن أشخاصهن ولا لباسهن وزينتهن الظاهرة أوالباطنة ،ولا شيئاً من جسدهن من الوجه والكفين وسائر البدن .
2-الحجاب بالبرقع والجلباب،بحيث لا يبدو شيئ من الوجه والكفين ،وسائر الجسد ولباس الزينة ،فلايري إلا أشخاصهن مستورة من فوق الرأس إلي القدم.
3-الحجاب بالجلابيب وأمثالهامع كشف الوجه والكفين والقدمين.
وفی صفحة:229 :
والدرجة الثالثة من الحجاب، هي أن تخرج النساء مستورة الأبدان من الرأس إلي القدم مع كشف الوجه والكفين عند الحاجة بشرط الأمن من الفتنة.
أحکام القرآن-للتهانوی-( ٣/٤٧١):
وبالجملة فاتفقت مذاهب الفقهاء وجمهور الأمة علی أنه لايجوز للنساء الشواب کشف الوجوه والأکف بين الأجانب،  ويستثنی منه العجائز لقوله تعالیٰ:"القواعد من النساء"، الآية، والضرورات مستثناة فی الجميع بالإجماع. فلم يبق للحجاب المشروع إلا الدرجتان الأوليتان: الأولیٰ القرار فی البيوت وحجاب الأشخاص، وهو الأصل المطلوب. والثانية خروجهن لحوائجهن مستترات بالبراقع والجلابيب، وهو الرخصة للحاجة. ولاشک أن کلتا الدرجتين منه مشروعتان، غير أن الغرض من الحجاب لما کان سد ذرائع الفتنة وفی خروجهن من البيوت ولو للحوائج والضرورات کان مظنة فتنة شرط عليهن الله ورسوله  صلی الله عليه وسلم شروطاً يجب عليهن التزامها عند الخروج:
1.أن یترکن الطیب ولباس الزینة عند الخروج، بل یخرجن وهن تفلات، کما مر فی کثیر من روایات الحدیث مما ذکرنا.
2.أن لايتحلين حلية فيها جرس يصوت بنفسه، کما فی حديث رقم .42
3.أن لايضربن بأرجلهن ليصوت الخلخال وأمثاله من حليهن، کما هو منصوص القرآن.
4.أن لا يتبخترن فی المشية کيلا تکون سبباً للفتنة، کما مر فی حديث رقم  .
5.أن لا تمشین فی وسط الطریق بل حواشیها، کما فی حدیث رقم 15.
6.أن يدنين عليهن من جلابیبهن بحیث لایظهر شئ منهن إلا عیناً واحدةً لرؤیة الطریق، کما مر من تفسیر ابن عباس لهذه الآیة.
7.أن لایخرجن إلا بإذن أزواجهن، کما فی حدیث رقم 38 .
8.أن لایتکلمن أحداً إلا بإذن أزواجهن، کما فی حدیث رقم.
9.وإذا تکلمن أحداً من الأجانب عند الضرورة فلایخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبه مرض، کما هو منصوص الکتاب.
10.وأن يغضضن أبصارهن عن الأجانب عند الخروج.
11.أن لایلجن فی مزاحم الرجال، کمایستفاد من حدیث ابن عمر رضی الله عنه، لو ترکنا هذا الباب للنساء(رقم25).
فهذه أحد عشر شرطاً وأمثالها یجب علی المرأة التزامها عند خروجها من البیت للحوائج والضروریات، فحیث فقدت الشروط منعن من الخروج أصلاً.
الدر المختار (6/ 369):
(و) ينظر (من الأجنبية) ولو كافرة، مجتبى (إلى وجهها وكفيها فقط) للضرورة، قيل والقدم والذراع إذا آجرت نفسها للخبز، تاترخانية.
رد المحتار (6/ 369):
قوله ( إذا أجرت نفسها للخبز ) أي ونحوه من الطبخ وغسل الثياب، قال الإتقاني: وعن أبي يوسف أنه يباح النظر إلى ساعدها ومرفقها للحاجة إلى إبدائهما إذا أجرت نفسها للطبخ والخبز آه.  والمتبادر من هذه العبارة أن جواز النظر ليس خاصاً بوقت الاشتغال بهذه الأشياء بالإجارة بخلاف العبارة الأولى، وعبارة الزيلعي أوفى بالمراد، وهي: وعن أبي يوسف أنه يباح النظر إلى ذراعها أيضاً؛ لأنه يبدو منها عادةً، آه، فافهم.
اللباب في شرح الكتاب (ص: 411):
(ولا يجوز) للرجل (أن ينظر من الأجنبية) الحرة (إلا إلى وجهها وكفيها) ضرورة احتياجها إلى المعاملة مع الرجال أخذاً وإعطاء وغير ذلك، وهذا تنصيص على أنه لا يباح النظر إلى قدمها، وعن أبي حنيفة أنه يباح؛ لأن فيه بعض الضرورة، وعن أبي يوسف أنه يباح النظر إلى ذراعها أيضاً؛ لأنه قد يبدو منها عادةً، هداية، وهذا إذا كان يأمن الشهوة (فإن كان لا يأمن) على نفسه (الشهوة لم ينظر إلى وجهها إلا لحاجة) ضرورية، لقوله عليه الصلاة والسلام: "من نظر إلى محاسن امرأة أجنبية عن شهوة صب في عينيه الآنك (الآنك: الرصاص المذاب، وهو حينئذٍ شديد الحرارة) يوم القيامة"، هداية.قال في الدر: فحل النظر مقيد بعدم الشهوة، وإلا فحرام.
مختصر القدوري (ص: 241):
وينظر الرجل من الرجل إلى جميع بدنه إلا ما بين سرته إلى ركبته. ويجوز للمرأة أن تنظر من الرجل إلى ما ينظر الرجل إليه منه وتنظر المرأة من المرأة إلى ما يجوز للرجل أن ينظر إليه من الرجل. وينظر الرجل من أمته التي تحل له وزوجته إلى فرجها. وينظر الرجل من ذوات محارمه إلى الوجه والرأس والصدر والساقين والعضدين، ولا ينظر إلى ظهرها وبطنها... وینظر الرجل من مملوکة غیره إلی ما یجوز أن ینظر إلیه من ذوات محارمه.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  25/ربیع الثانی/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب