021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بالوں کو مختلف طریقوں (Hear Styles) سے کاٹنے کا حکم
78320جائز و ناجائزامور کا بیانناخن ،مونچھیں اور ،سر کے بال کاٹنے وغیرہ کا بیان

سوال

آج کل بالوں کے مختلف سٹائل چلے ہوئے ہیں، بال کہیں سے کٹے ہوئے، کہیں سے چھوڑے ہوئے ہوتے ہیں، سر کے ایک حصہ پر بال بڑے ہوتے ہیں اور دوسرے حصہ پر مشین یا استرا لگوایا ہوتا ہے۔ بالوں کی ایسی حجامت کروانے کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔ سر کے بعض حصوں کے بال بالکل منڈوانا یا اتنی باریک مشین لگوانا جو منڈوانے کی طرح ہو اور بعض حصوں پر چھوڑنا "قزع" ہے جس سے حدیث میں منع کیا گیا ہے، لہٰذا اس سے بچنا ضروری ہے۔

(2)۔۔۔ بعض حصوں کے بال کسی حد تک چھوٹے کرنا اور بعض حصوں پر چھوڑنا اگرچہ "قزع" میں داخل نہیں، لیکن اس طرح بال بنوانے اور اس کے علاوہ آج کل بالوں کی کٹنگ کے جو مختلف انداز (Hear  Styles) رائج ہیں، ان کے بارے میں اصول یہ ہے کہ:-

  • ایسے بال بنوانا اور رکھنا جائز نہیں جو کفار یا فساق کا شعار یعنی ان کی علامت اور پہچان ہو۔
  • ایسے بال بنوانا اور رکھنا بھی جائز نہیں جس میں غیر مسلموں، فساق، فجار یا عورتوں کے ساتھ  "تشبُّہ" ہو۔ تشبہ کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کے بال اس لیے بنوائے کہ میں ان کی طرح نظر آؤں، جیساکہ آج کل مختلف مشہور شخصیات کو دیکھ کر ان کی طرح بال اور انداز اپنائے جاتے ہیں۔
  •  اگر "تشبہ" کا قصد نہ ہو اور اس طرح بال بنوائے جو ان لوگوں کی طرح ہو تو اسے "مشابہت" کہا جاتا ہے، اور ان امور میں کفار اور فساق و فجار کے ساتھ مشابہت سے بھی بچنا چاہیے۔
  • ایسے انداز سے بال بنوانا جو انسانی شکل و صورت بگاڑنے کے زمرے میں آتی ہو، یہ بھی جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو "احسنِ تقویم" یعنی خوبصورت اور بہترین انداز میں بنایا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی خوبصورت خلقت کو بگاڑنا نہ شرعاً جائز ہے اور نہ عقلاً قابلِ قبول ہے۔

(3)۔۔۔ چاروں طرف سے بال برابر چھوٹے کروانا عام طور سے علما اور صلحا کا طریقہ رہا ہے اور ہے؛ اس لیے جب بال چھوٹے کروانے ہوں تو چاروں طرف سے برابر چھوٹے کروانے چاہئیں۔        

حوالہ جات
صحيح البخاري (7/ 163):
حدثنا مسلم بن إبراهيم حدثنا عبد الله بن المثنى بن عبد الله بن أنس بن مالك حدثنا عبد الله بن دينار عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن القزع.
صحيح مسلم (3/ 1675):
(باب كراهة القزع ) حدثني زهير بن حرب حدثني يحيى يعني بن سعيد عن عبيد الله أخبرني عمر بن نافع عن أبيه عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن القزع. قال: قلت: لنافع وما القزع؟ قال: يحلق بعض رأس الصبي ويترك بعض.
 فیض الباری، ط:دار الکتب العلمیة (6/105):
باب القزع:……… منع عنه الحنفیة مطلقا، فیجب علیه إما أن یحلق مطلقًا أو یترك مطلقًا، ولایجوز له حلق البعض و ترك البعض مطلقًا.  
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (13/ 96):
(وعنه) أي عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما قال قال رسول الله: (من تشبه بقوم) أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار، أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار (فهو منهم) أي في الإثم والخير.  
قال الطيبي: هذا عام في الخلق والخلق والشعار، ولما كان الشعار أظهر في الشبه ذكر في هذا الباب. قلت: بل الشعار هو المراد بالتشبه لا غير؛ فإن الخلق الصوري لا يتصور فيه التشبه، والخلق المعنوي لا يقال فيه التشبه، بل هو التخلق، هذا.  
تکملة فتح الملهم (4/161):
(قوله: قال یحلق بعض رأس الصبي) الخ: قال النووی رحمه الله تعالیٰ: "وهذا الذى فسره به نافع أو عبيد الله هو الأصح، وهو أن القزع حلق بعض الرأس مطلقا، ومنهم من قال هو حلق مواضع متفرقة منه، والصحيح الأول؛ لأنه تفسير الراوى، وهو غير مخالف للظاهر، فوجب العمل به." وأما ما ذکر في صحیح البخاري من قوله "إذا حلق الصبي وترك ههنا شعرة، وههنا شعرة، فالظاهر أنه تمثیل بفرد من أفراد القزع، ولیس تعریفًا له.
شرح النووي على صحیح مسلم (14/ 101):
أجمع العلماء على كراهة القزع اذا كان فى مواضع متفرقة، إلا أن يكون لمداواة ونحوها، وهى كراهة تنزيه، وكرهه مالك فى الجارية والغلام مطلقا، وقال بعض أصحابه لابأس به فى القصة
والقفا للغلام، ومذهبنا كراهته مطلقا للرجل والمرأة لعموم الحديث.
 قال العلماء: والحكمة فى كراهته أنه تشويه للخلق، وقيل: لأنه أذى الشر والشطارة، وقيل: لأنه زى اليهود، وقد جاء هذا فى رواية لأبى داود، والله أعلم.
رد المحتار (6/ 407):
قوله (وأما حلق رأسه إلخ) …… قال ط: ويكره القزع، وهو أن يحلق البعض ويترك البعض قطعا مقدار ثلاثة أصابع، كذا في الغرائب. 
فتاوی رشیدیه، ط:ادارہ اسلامیات (484):
"بعض سر کے بال لینے اور بعض چھوڑنے مکروہ ہیں تحریمًا؛ لقوله: نهی (النبي علیه السلام) عن القزعة، الحدیث. "  

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  25/ربیع الثانی/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب