021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اہلیہ ،چاربیٹوں میں تقسیم میراث
78302میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

مجھے قرآن سنت کی روشنی میں تر کہ کے مسئلے پر آپ سے رہنمائی درکار ہے ۔

1۔عرض یہ ہے کہ سائل خالداعجازمفتی کے والد بزرگوار ضیاءالدین لاہوری (لاہوری تخلص ہے، کسی دیگر مذہب سے کوئی تعلق نہیں ) ولد معراج دین86 برس کی عمر میں گزشتہ برس 21 ستمبر 2021 کو اللہ تعالی کو پیارے ہو گئے ۔ مرحوم کے ترکہ کے وارثان درج ذیل ہیں۔

 (۱)۔ صدیقہ بیگم بیوہ ضیاءالدین                         (۲)۔ خالداعجازمفتی ولد ضیاءالدین

(۳)۔ امجدعلی ولد ضیاء الدین                           (۴)۔ عابد ضياء ولد ضیاءالدین

(۵)۔ زاہدحسین ولدضیاءالدین

والد بزرگوار ضیاءالدین لاہوری کی بیٹی کوئی نہیں، جبکہ ان کے والدین یعنی میرے دادا جان اور دادی جان کافی عرصہ پہلے انتقال فرما گئے تھے ۔

2۔والد مرحوم کی حبیب بنک مؤن مارکیٹ، علامہ اقبال ٹاؤن ، لاہور میں موجود پنشن کی رقم مبلغ /.240,188 روپے اور سٹیٹ بنک آف پاکستان سے جاری کردہ ایک لاکھ بیس ہزار روپے میں خریدے گئے تین پریمیم پرائز بانڈز مالیتی چالیس ہزار روپے فی بانڈ کے علاوہ مکان نمبر 6 / 17 آصف بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن ، لاہور ان کے ترکہ میں ہے جس میں وہ اپنی اہلیہ، بیٹے عابدضیاء، عابد ضیاء کی شادی کے بعد سے اس کی بیوی خدیجہ مجید یعنی اپنی بہو اور دو پوتوں محمد شہروزاور محمد شہوار کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ جانشینی سرٹیفیکیٹ کے حصول کے بعد بنک میں موجود اور پرائز بانڈز کی رقم والد بزرگوار کی روح کے ایصال ثواب کے لئےبطورصدقہ جاریہ خرچ کر دی جائے،نیز مکان کی ممکنہ فروخت کے کمیشن پر خرچ کر دی جائے تو بقیہ تر کہ مکان کی فروخت سے حاصل شدہ رقم ہوگی ۔

3۔فرض کیا جاۓ کہ مکان ایک کروڑ چالیس لاکھ میں فروخت ہوتو والدہ صاحبہ کوسترہ لاکھ

پچاس ہزار ادا کرنے کے بعد بقیہ رقم ایک کروڑ بائیس لاکھ پچاس ہزارروپے چاروں بھائیوں میں تیس لا کھ باسٹھ ہزار پانچ سو روپے فی بھائی تقسیم ہو جائے گی ۔

4۔محترم مفتی صاحب! اگر درج بالا حساب درست نہیں تو مجھے قرآن اور سنت کی روشنی میں درست تقسیم سے آگاہ فرمائیں ۔

5۔اب اسی ترکہ سے متعلقہ دوسرا امر ۔ جانشینی سرٹیفیکیٹ ابھی جاری نہیں ہوا اور اس دوران میرے چھوٹے بھائی پروفیسر امجد علی دو ہفتے قبل ڈینگی بخارمیں مبتلا ہونے کے باعث 24 ستمبر 2022 ءکوانتقال فرما گئے ۔اگر جانشینی سرٹیفیکیٹ جاری ہو چکا ہوتا تو امجدعلی اپنی رقم لے کر جہاں مرضی خرچ کر چکے ہوتے ،ہمیں کوئی سروکار نہیں تھا،لیکن ابھی کسی کو بھی حصہ نہیں مل سکا اور ان کی رحلت ہوگئی۔ میری راہنمائی فرمائیں کہ والد بزرگوار کے ترکہ میں سے مرحوم بھائی امجد علی کے حصہ کو کس کے حوالے کیا جاۓ کہ امجد علی مرحوم کے وارثان میں ان کی بیوہ خدیجہ امجد ہیں جبکہ ایک لے پالک بیٹی حراشمعون ہیں ۔اولاد سے محروم میرےبھائی مرحوم امجد علی کے دوست محترم خالد عمر صاحب نے اپنی پہلی اولادحرا کو پیدائش کے چند روز بعد ہی امجد علی اور خدیجہ امجد کے سپرد کر دیا تھا۔ حرابیٹی کی شادی شمعون صاحب سے ہوچکی ہے اور ان کا ایک پانچ برس کا بیٹا عائش شمعون ہے۔ مالک کائنات محتر م خالد عمر صاحب کو جزائے خیر عطا فرماۓ ۔آمین !

6۔ترکہ سے متعلق ایک اور امر پر بھی قرآن وسنت کی روشنی میں آپ کی راہنمائی درکار ہے ۔ مرحوم امجد علی کا ملتان روڈ پر ایک مکان ان کی بیوہ خدیجہ امجدکے نام ہے لہذا اس کا کوئی مسئلہ نہیں ۔راۓ ونڈ روڈ کے نزدیک ایک اور مکان جس میں دونوں میاں بیوی رہائش پذیر تھے اور جہاں میری بھا بھی عدت گزاررہی ہیں، وہ مکان دونوں میاں بیوی کی ملکیت ہے ۔ متذکرہ مکان کا آدھا حصہ بھا بھی جان کے نام ہے لہذا اس کا بھی کوئی مسئلہ نہیں، لیکن جو آدھا حصہ امجد علی مرحوم کی ملکیت ہے ،اس کی وارث صرف بھا بھی جان خدیجہ امجد ہیں حراشمعون یا کوئی اور بھی ہے ؟ بھا بھی جان کے والد بزرگوار اور تین بھائی ہیں ۔

مالک کائنات کو شاہد و بصیر مانتے ہوئے حلف اٹھا کر بیان کر رہا ہوں کہ مجھے کوئی لالچ نہیں ۔

میں والد بزرگوار کے ترکہ میں سے مرحوم بھائی امجد علی کا تمام حصہ وارثان تک پہنچانا چاہتا ہوں جبکہ امجد علی مرحوم ومغفور کے اپنے ترکہ کی تقسیم کے بارے بھی راہنمائی چاہتا ہوں کیونکہ میری عمر چونسٹھ برس ہونے کو ہے اورادھیڑ عمر ہونے کے باعث اب مسائل حل کروانے کے لئے مجھے ہی نشانہ بنایا جاۓ گا۔ لالچ اس لئے نہیں کہ میرے دادا جان ، میرے نانا جان، میرے والدبزرگوار ، میرے تایا جان ،میرے چچاجان یا میرے بھائی اپنے ساتھ کیا لے گئے ہیں جو میں لا لچ کروں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔4۔ آپ کے والد ضیاء الدین صاحب کی  میراث اس طرح تقسیم ہوگی کہ انہوں نے  فوت ہوتے وقت  ترکہ میں جو کچھ چھوڑا  تھا ان  تمام مال واسباب کی قیمت لگائی جائے،اس میں بینک کے اندر موجود پنشن کی رقم،پریمیم پرائز بانڈز کے ایک لاکھ بیس ہزار روپے اور مکان کی قیمت سب شامل ہیں،یہ سب میراث کا حصہ ہیں،ان کو تمام ورثہ میں تقسیم اور اتفاق کے بغیر ویسے ہی خرچ کرنا درست نہیں،جب قیمت لگ جائے تو اس سے کفن دفن کے معتدل اخراجات نکالے جائیں،پھر اگر میت پر قرضہ ہو تو وہ ادا کیا جائے،اس کے بعد بقیہ مال  ورثہ میں تقسیم کیاجائے،ان کے ورثہ میں ایک بیو ی،4بیٹے ہیں ،جن میں میراث کی تقسیم اس طرح ہوگی:

1۔ اہلیہ: 12.5 فیصد حصہ ملے گا۔

2۔ 4بیٹوں کا مجموعی حصہ:87.5(یعنی ہر بیٹے کو21.88فیصد حصہ ملے گا۔)

واضح رہے کہ پریمیم پرائز بانڈز میں اس قدر رقم لے سکتے ہیں جو والد صاحب نے جمع کرائی تھی،جو اضافی رقم اس پر نفع کے نام سے بینک کی طرف سے مل رہی ہو وہ میراث میں تقسیم کرنے کے بجائے ، ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا ضروری ہے۔

5۔محمد امجد علی صاحب کو والد کی میراث میں سے حصہ ملےگا ،جس کی مقدار اوپر ذکر ہے(21.88)،ان  کا حصہ

ان کے ورثہ کے حوالے کیا جائے ،ان کے ورثہ میں درج ذیل لوگ آتے ہیں۔ اہلیہ،والدہ ،بقیہ تین بھائی۔جن

میں میراث کی تقسیم اس طرح ہوگی۔

1۔ اہلیہ: 25 فیصد حصہ ملے گا۔

2۔والدہ:16.67فیصد حصہ ملے گا۔

3۔ تین بھائیوں کا مجموعی حصہ:58.33(یعنی ہر بھائی کو19.33فیصد حصہ ملے گا۔)

لے پالک بیٹی وراثت میں حقدار نہیں،تاہم وراثت کی تقسیم کے بعد اگر کوئی وارث اپنی خوشی سے ان کو کچھ دیناچاہتاہے،تو اختیار ہے۔

6۔ اگر یہ مکان ان کی اہلیہ کے ذاتی ہیں تو پھر ان ہی کی ملکیت میں رہیں گے۔اور اگر ان کے شوہر امجد علی نے دیے ہیں تواپنی زندگی میں کسی کوجائیداد دینا ہبہ ہے،اور ہبہ میں قبضہ ضروری ہے،اس لیے  اگر امجد  علی صاحب نے قبضہ دیا ہے اس طور پر  کہ اس جائیداد سےاپنے تصرفات ختم کرکے ، اس کے تمام حقوق اور سارے متعلقہ امور سے دستبردار ہوکر اہلیہ کے حوالے کردیےہوں تویہ جائیداد ان کی اہلیہ کی  ملکیت میں آگئی ہے۔اگر قبضہ نہ دیا ہو بلکہ فقط نام کی ہوں تو پھر یہ جائیداد ان کی ملکیت میں نہیں آئی ہے،لہذا وہ میراث کا حصہ بن کر ورثہ کے درمیان اپنے حصص کے مطابق تقسیم ہوگی۔

اس تفصیل کے مطابق ان مکانات میں جوحصہ اہلیہ کا بنتا ہے وہ تو ان کا حق ہے،وہ تقسیم نہیں ہوگا۔جو حصہ امجد علی کا ہے وہ میراث کے طور پر تقسیم ہوگا،ان کے ورثہ اور ان میں میراث کی تقسیم کا طریقہ کار جواب نمبر 5میں گذرچکا ہے

حوالہ جات

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

28/ربیع الثانی1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب