021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تبلیغی جماعت میں جانے کی منت ماننا
78366قسم منت اور نذر کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

        السلام علیکم ! گز ارش ہے کہ  میں نے منت  مانی تھی  کہ اگر اللہ تعالی نے مجھے بیٹا عطا فرما یا تو میں تبلیغ میں چالیس دن کے لیےجاؤں گا اور اس کا ٹائم   مقرر نہیں کیا  تھا  نیت کرتے  وقت، بس یہ نیت کی تھی  کہ بیٹا پیدا ہونے کے  بعد  جب بیٹا اور میری وائف  دونوں  صحت مندہو جائیں گےاور بیٹا کچھ بڑا ہو جائے گا  ،اس وقت میں چالیس دن لگانے کے لیے جاؤں  گا ۔ہم لوگ تین بھائی  ہیں تینوں شادی شدہ ہیں ،بچوں والے  ہیں اور کھانا پینا  اور کاروبار تینوں کا اکٹھا ہے، ہمارے پاس دو دکانیں  ہیں جن میں سے ایک دکان پر میں ہوتا ہوں  اور اس دکان پر میں نے اپنا ایک شاگرد رکھا ہوا  تھااور دوسری دکان پر میرے دو بھائی ہوتے  ہیں وہ دکان بڑی ہے،  یعنی کارخانہ  ہے وہاں دو بھائی اور کچھ کاریگر بھی ہوتے ہیں ۔جب میں نے نیت کی تھی تو میرے پاس ایک کاریگر تھا جو کہ دکان کو سنبھال سکتا تھا میرے جانے کے بعد اور میں نے یہی سوچا ہوا  تھا کہ جب میں چلا جاؤں گاتو وہ دکان پر کام کرے گا او رمیرے بھائی اس کی سرپرستی کریں گے ،لیکن جب بیٹا پیدا  ہوا اس وقت کاریگر کام چھوڑ کر پکا چلا گیا  ۔اب میرے پاس ایک چھوٹا سا  شاگرد ہے جو دکان سنبھال نہیں سکتا اور میرے بھائی بھی دکان پر ٹائم نہیں دے سکتے اگر دوکان بند کر کے  چالیس دن کے لیے  چلا جاؤں تو  کسٹمر خراب ہونے کا بہت زیادہ چانس ہے، تو میں اس بات پر فیصلہ نہیں کر پا    رہاکہ دوکان بند کر کے اللہ پر  چھوڑ کر چلا جاؤں   یا اس کا کوئی اور طریقہ ہو سکتا ہے؟ میرے بھائی کہتے  ہیں کہ اگر دکان چھوڑ کر جاؤ گے  تو تمہاری ذمہ داری ہو گی ،ہم تمہاری   دکان پر ٹائم  نہیں دے سکتے ،کیوں کہ ہم اپنے کارخانے میں بہت زیادہ مصروف  ہیں ۔    لہذا اب میں فیصلہ نہیں کر پا رہا  کہ شریعت  کے اندر ان حالات  میں دکان بند کر کے اللہ پاک  پرتوکل کر کے مجھے نکل جانا چاہیے  یا مجھے کچھ اور صبر کرنا چاہیے کہ بچہ بڑا  ہو  جائے تو جاؤں یا اس کا کوئی کفارہ ہونا چاہیے ؟یہ آپ مجھے برائے  مہربانی جواب عنایت فرمائیں ،جبکہ میری وائف  دوبارہ پریگنینٹ ہو چکی  ہے اور بیٹا ایک سال کا ہوگیا  ہے بہت شکریہ ،آپ کی عین نوازش ہوگی۔ اللہ حافظ ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

        صورتِ مسئولہ میں آپ نے جو "چلہ لگانے"کی منت مانی ہے،یہ منت  (تبلیغٰ جماعت میں وقت لگانا)فی نفسہ شرعاً  فرض یا واجب نہیں ، لہذا  اس کی منت  بھی شرعاً منعقد نہیں ہوئی، پس آپ کے لیےچلہ لگانا لازم نہیں ،آپ چلہ لگانےاور نہ لگانے میں آزاد ہیں ۔ مگر بہتر یہ ہے کہ  جب  حالات  اجازت دیں تو اللہ تعالی سے  کیا ہو ا وعدہ پورا کر لیں، وقت لگانے میں خیر ہی ہوگی ان شاءاللہ۔

واضح رہے کہ منت کے لازم ہونے کی چند شرائط ہیں جن کا پایا جانا شرعاً  ضروری ہے،جو کہ درج ذیل  ہیں:

1.منت  صرف اور صرف اللہ کے نام کی مانی جائے، غیر اللہ کے نام کی منت مانگنا صحیح نہیں ہے۔

2. منت صرف عبادت  ِ مقصودہ کے لیے ہو، پس جو کام عبادتِ مقصودہ نہیں، اس کی منت بھی صحیح نہیں ہے۔

3.جس عبادت کی منت مانی جارہی ہو، اس کی جنس میں سے فرض یا واجب ہو، یعنی اس طرح کی عبادت کبھی فرض یا واجب ہوتی ہو، جیسے: نماز، روزہ، حج، قربانی وغیرہ، پس ایسی عبادت کہ جس کی جنس کبھی فرض یا واجب نہیں ہوتی ہو، اس کی منت بھی لازم نہیں ہوتی۔

حوالہ جات
    قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ: وصرح في النهاية بأن النذر لا يصح ‌إلا ‌بشروط ‌ثلاثة في الأصل ‌إلا إذا قام الدليل على خلافه ،إحداها أن يكون الواجب من جنسه شرعا، والثاني أن يكون مقصودا لا وسيلة، والثالث أن لا يكون واجبا عليه في الحال أو في ثاني الحال، فلذا لا يصح النذر بصلاة الظهر وغيرها من المفروضات ؛لانعدام الشرط الثالث. (البحر الرائق شرح كنز الدقائق:2/514)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:ولم ‌يلزم‌الناذر ما ليس من جنسه فرض كعيادة مريض وتشييع جنازة ودخول مسجد ولو مسجد الرسول  صلى اللہ عليه وسلم أو الأقصى ؛لأنه ليس من جنسها فرض مقصود.
( الدر المختار مع رد المحتار:5/518)
وقال   أيضاً:ولو ‌نذر التسبيحات دبر الصلاة، لم يلزمه .( الدر المختار مع رد المحتار:5/520)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:قوله (ولو نذر التسبيحات): لعل مراده التسبيح والتحميد والتكبير ثلاثا وثلاثين في كل وأطلق على الجميع تسبيحا تغليبا لكونه سابقا،وفيه إشارة إلى أنه ليس من جنسها واجب.( رد المحتار:5/520)

محمد عمر الیاس

دارالافتاء جامعۃالرشید،کراچی

4 جمادی الاولی،1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر بن محمد الیاس

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب