78367 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | ہبہ کےمتفرق مسائل |
سوال
میری والدہ نے میری بیٹی ،جو کہ ابھی ڈیڑھ سال کی ہے،اسے عقیقہ میں ایک سونے کا لاکٹ دیا ہے،کیا وہ لاکٹ میں پہن سکتی ہوں یا اس کے لیے بیٹی کی اجازت لینا ہو گی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بچوں کو ان کے بچپن میں رشتہ دار اور عزیر و اقارب جو تحفے وغیرہ صراحتاً کہہ کر دیں یا عرفاً طے ہو کہ ایسی چیزیں بچوں ہی کو دی جاتی ہیں تووہ بچوں ہی کی ملکیت شمار ہوں گی، والدین کے لیے ان چیزوں کو استعمال کرنا جائز نہیں ۔
صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کی والدہ نے لاکٹ آپ کی بیٹی کے لیے متعین کر کے دیا ہے یا آپ کے خاندانی عرف میں ایسا تحفہ بیٹی ہی کے لیے متعین سمجھا جاتا ہے تو آپ کے لیے بیٹی کی اجازت کےبغیر یہ لاکٹ پہننا جائز نہیں۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:فأفاد أن غير المأكول لا يباح لهما إلا لحاجة.وضعوا هدايا الختان بين يدي الصبي فما يصلح له كثياب الصبيان فالهدية له، وإلا فإن المهدي من أقرباء الاب أو معارفه فللاب أو من معارف الام فللام، قال هذا لصبي أو لا.ولو قال أهديت للاب أو للام فالقول له، وكذا زفاف البنت.
(الد المختار مع رد المحتار:8/501)
قال العلامۃعلاء الدين أبو بكر بن مسعود الكاساني رحمہ اللہ: أما أصل الحكم فهو ثبوت الملك للموهوب له في الموهوب من غير عوض لأن الهبة تمليك العين من غير عوض فكان حكمها ملك الموهوب من غير عوض.(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:8/115)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:قوله: وهب له، قال في التتارخانية :روي عن محمد نص أنه يباح.وفي الذخيرة: وأكثر مشايخ بخارى على أنه لا يباح.وفي فتاوى سمرقند: إذا أهدي الفواكه للصغير يحل للأبوين الأكل منها إذا أريد بذلك الأبوان لكن الإهداء للصغير استصغارا للهدية اهـ. (رد المحتار:8/500)
محمد عمر الیاس
دارالافتاء جامعۃالرشید،کراچی
4ربیع الثانی،1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد عمر بن محمد الیاس | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |