021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بلیک میں آٹالیکرفروخت کرنے والے کی کمائی کاحکم
78355خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

حکومت پنجاب نے صوبہ خیبرپختون خواہ پرآٹاکی سپلائی بندکردی ہے،زیدآٹا فروخت کرنے والوں سے بات کرکے بلیک پرآٹالیتاہے اوریہاں ڈیلرزکودیتاہے،واضح رہے کہ زید راستے کی رکاوٹوں کوپیسے دے کرعبورکرتاہے،سوال یہ ہے کہ زید اس آٹے سے جورقم کمارہاہے کیایہ زیدکے لیے جائزہے؟ اورڈیلرزکازیدسے مال لیناجائزہے یانہیں؟کیاڈیلرز ولاتعانوعلی الاثم والعدوان کی وعیدمیں آتے ہیں یانہیں؟

بکرکاموقف یہ ہے کہ اس میں اگرچہ حکومت کے قانون کی خلاف ورزی ہے اوررشوت کاگناہ ہے،لیکن اس آٹے کی جوکمائی ہےوہ حلال ہے اورڈیلرزکیلئے لیناجائزہے،عمروکاموقف یہ ہے کہ زیدکیلئے یہ کمائی حلال نہیں،کیونکہ اس میں حاکم کے حکم کی نافرمانی ہے اوردوسرارشوت کاگناہ ہے اورڈیلرزکیلئے لینابھی جائزنہیں،کیونکہ یہ گناہ پرتعاون ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سرکار کی طرف سے بنائے گئے قوانین عمومی طورپرکسی فائدہ اورمصلحت کی بنیادپرہوتے ہیں،اس لئے ان قوانین کی پابندی ضروری ہے،ان کی خلاف ورزی بغیرکسی شرعی وجہ کےجائزنہیں ہوتا،لہذاصورت مسؤلہ میں اگرسرکارکی طرف سے ایک صوبہ سے دوسرے صوبہ میں گندم منتقل کرنے پرپابندی ہے توزیدپرلازم ہے کہ وہ اس قانون کی پابندی کرے اور بلیک میں آٹانہ خریدے،خاص طورپرجبکہ اس میں جان اورعزت کوخطرہ بھی ہے، کیونکہ شریعت نے اپنے آپ کورسوائی اورذلت کی جگہ میں ڈالنے سے منع کیاہے،اگر کسی نے اس طرح گندم مالک سےخریدکرفروخت کی ہے یافروخت کررہاہے تو یہ مکروہ ہے،اگرچہ آمدن کوحرام نہیں کہاجاسکتا،لیکن قانون شکنی اور رشوت وغیرہ کاگناہ الگ ہوگا۔

حوالہ جات
فی الأشباه والنظائر - حنفي - (ج 1 / ص 149):
القاعدة الخامسة : تصرف الإمام على الرعية منوط بالمصلحة۔۔۔
اذا كان فعل الإمام مبنيا على المصلحة فيما يتعلق بالأمور العامة لم ينفذ أمره شرعا إلا إذا وافقه فإن خالفه لم ينفذ۔
وفی رد المحتار (ج 27 / ص 14):
( قوله ولا يسعر حاكم ) أي يكره ذلك كما في الملتقى وغيره ( قوله { لا تسعروا }۔۔۔۔ وظاهره أنه لو باعه بأكثر يحل وينفذ البيع ولا ينافي ذلك ما ذكره الزيلعي وغيره من أنه لو تعدى رجل وباع بأكثر أجازه القاضي ، لأن المراد أن القاضي يمضيه ولا يفسخه۔

محمد اویس

دارالافتاء جامعة الرشید کراچی

    ۵/جمادی الاولی ۱۴۴۴ ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب