021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خلع کے بعد بیوی بچوں کے حقوق اور نان نفقہ کی تفصیل
78444نان نفقہ کے مسائلنان نفقہ کے متفرق مسائل

سوال

میری اور میری بیوی کے درمیان خلع ہوچکا ہے۔ میری ایک دکان ہے جس کا کرایہ 80 ہزار آتا ہے، یہ کرایہ خلع کے بعد آدھا بچوں کے نان نفقہ کی مد میں جاتا ہے، اور آدھا مذکورہ فلیٹ کے قرض کی مد میں جو میں نے اپنے بھائی سے لیا تھا۔ الحمد للہ اتنی پراپرٹی ہونے کے باوجود میں کپڑے کی دکان پر نوکری کر رہا ہوں اور تین (3) مہینے سے اپنی بیوہ بہن کے گھر رہ رہا ہوں۔ میرا اپنا خرچ اور بہن کا خرچ میں اپنی تنخواہ سے پورا کر رہا ہوں۔ دونوں بچے اہلیہ کے پاس ہیں، میں بہت ذہنی دباؤ کا شکار ہوں؛ کیونکہ میرے بچے مجھ سے دور ہوئے ہیں اور اہلیہ مسلسل مجھ پر دباؤ رکھتی ہے کہ ایسا کرو، ویسا کرو، کچھ بھی کرو، کہیں بھی جاؤ، ہمیں خرچہ پورا دئیے جاؤ، خود کچھ بھی کرو۔ میری دکان کے کاغذات بھی اہلیہ کے قبضے میں ہیں اور وہ دینے سے مسلسل حیل و حجت کرتی ہے۔ میں بچوں کی وجہ سے سب کچھ برداشت کیے ہوئے ہوں، یہاں تک کہ اگر درمیانی راستہ نکلے تو نکاح پر بھی آمادہ ہوں، مگر اہلیہ کسی کی نہ سننے کو تیار ہے، نہ ماننے کو۔

سوال یہ ہے کہ:-

(1)۔۔۔ اگر اہلیہ کسی بھی صورت نکاح میں نہیں آنا چاہتی تو اس کا یا بچوں کا مجھ پر کیا حق بنتا ہے؟ اگر میں اپنی نئی زندگی شروع کرنا چاہوں تو میرے اس عمل سے بچوں کی حق تلفی تو نہیں ہوگی؟

(2)۔۔۔ بچوں کا نان نفقہ کتنا بنتا ہے؟   

(3)۔۔۔ میں اپنی اس دکان کا مالک ہوں، میں اسے بیچ کر کوئی دوسری جگہ لینا چاہتا ہوں،  بقایا رقم سے اپنا قرض ادا کرنا چاہتا ہوں اور اپنا کوئی ذاتی کام شروع کرنا چاہتا ہوں۔ اگر میں اپنی یہ دکان بیچوں گا تو اس میں بچوں پر تو کوئی زیادتی نہیں ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔ صورتِ مسئولہ میں اگر آپ دونوں کا آپس میں دوبارہ نکاح نہیں ہوتا تو خلع کے بعد سے عدت ختم ہونے تک اہلیہ کا نان نفقہ آپ پر لازم ہوگا۔ عدت یعنی تین ماہواریاں گزرنے کے بعد اس کا آپ پر کوئی واجب حق نہیں رہے گا۔ اگر آپ دونوں کا دوبارہ آپس میں نکاح نہیں ہوتا اور آپ دوسرا نکاح کرتے ہیں تو صرف دوسرا نکاح کرنا بچوں کی حق تلفی شمار نہیں ہوگی، آپ دوسرا نکاح کرسکتے ہیں۔ البتہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور شادی کے قابل ہونے پر ان کے لیے مناسب رشتوں کا انتظام کرنا آپ کی ذمہ داری ہے، اس میں آپ اپنی طرف سے کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں۔ نیز چونکہ آپ کے دونوں بیٹے سات سال کی عمر سے زیادہ کے ہیں، اس لیے بلوغت تک ان کی حضانت اور تربیت اور ان کو اپنے پاس رکھنے کا حق آپ کو حاصل ہے۔ بلوغت کے بعد اگر وہ سمجھ دار ہوں، ان کے غلط کاموں میں پڑنے اور خراب ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو پھر انہیں اختیار ہوگا کہ چاہیں تو آپ کے پاس رہیں اور چاہیں تو اپنی والدہ کے پاس رہیں۔

(2)۔۔۔ اگر آپ کے بچوں کے پاس اپنا مال ہے تو ان کا نان نفقہ آپ پر لازم نہیں ہے۔ اور اگر ان کے پاس اپنا مال نہیں ہے تو بلوغت تک ان کا نان نفقہ آپ پر لازم ہوگا، چاہے آپ دونوں کا باہم دوبارہ نکاح ہو یا نہ ہو، البتہ بلوغت کے بعد ان کا نان نفقہ آپ پر لازم نہیں ہوگا۔ بچوں کے نان نفقہ کی کوئی خاص مقدار شرعا مقرر نہیں، بلکہ ہر شخص پر اس کی استطاعت اور بچوں کی حاجات و ضروریات کے مطابق واجب ہوتا ہے، لہٰذا آپ پر اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق بچوں کا نان نفقہ واجب ہوگا۔  

(3)۔۔۔ والد کی زندگی میں بچوں کا والد کے مال میں اس طرح کوئی حق ثابت نہیں ہوتا کہ والد اس میں کوئی جائز تصرف بھی نہ کرسکے۔ اس لیے اگر یہ دکان آپ ہی کی ہے تو سوال میں ذکر کردہ مقاصد کے لیے اسے بیچنا بچوں پر زیادتی کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ آپ کی سابقہ بیوی کا بلاوجہ دکان کے کاغذات نہ دینا جائز نہیں، اس پر لازم ہے کہ آپ کی دکان کے کاغذات آپ کے حوالے کرے۔

حوالہ جات
الدر المختار (3/ 568-566):
(والحاضنة) أما أو غيرها (أحق به) أي بالغلام، حتى يستغني عن النساء، وقدر بسبع، وبه يفتى؛ لأنه الغالب…………. (ولا خيار للولد عندنا مطلقا) ذكرا كان أم أنثى خلافا للشافعي. قلت: وهذا قبل البلوغ، أما بعده فيخير بين أبويه، وإن أراد الانفراد فله ذلك، مؤيد زاده معزيا للمنية.  وأفاده بقوله……….. والغلام إذا عقل واستغنى برأيه ليس للأب ضمه إلى نفسه إلا إذا لم يكن مأمونا على نفسه فله ضمه لدفع فتنة أو عار وتأديبه إذا وقع منه شيء ولا نفقة عليه إلا أن يتبرع، بحر.
رد المحتار (3/ 569-567):
قوله (ولا خيار للولد عندنا) أي إذا بلغ السن الذي ينزع من الأم يأخذه الأب، ولا خيار للصغير؛ لأنه لقصور عقله يختار من عنده اللعب، وقد صح أن الصحابة لم يخيروا. وأما حديث أنه صلي الله عليه و سلم خير فلكونه قال "اللهم اهده" فوفق لاختيار الأنظر بدعائه عليه الصلاة والسلام، وتمامه في الفتح. قوله (وأفاده) أي أفاد ما ذكر من ثبوت التخيير والانفراد للبالغ مع زيادة تفصيل وتقييد لذلك فافهم………… قوله (والغلام إذا عقل الخ) كان ينبغي الابتداء بمسألة الغلام أو ذكرها آخرا لأن ما قبلها وما بعدها في الجارية ثم المراد الغلام البالغ؛ لأن الكلام فيما بعد البلوغ. وعبارة الزيلعي: ثم الغلام إذا بلغ رشيدا فله أن ينفرد إلا أن يكون مفسدا مخوفا عليه الخ. واحترز عما إذا بلغ معتوها، ففي الجوهرة ومن بلغ معتوها كان عند الأم سواء كان إبنا أو بنتا اه، وفي الفتح والمعتوه لا يخير ويكون عند الأم اه. قال في البحر بعد نقله ما في الفتح: وينبغي أن يكون عند من يقول بتخيير الولد، وأما عندنا فالمعتوه إذا بلغ السن المذكور أي الذي ينزع فيه من الأم يكون عند الأب اه، وتبعه في النهر وهو الموافق للقواعد، تأمل. قوله (فله ضمه) أي للأب ولاية ضمه إليه. والظاهر أن الجد كذلك بل غيره من العصبات كالأخ والعم. ولم أر من صرح بذلك، ولعلهم اعتمدوا على أن الحاكم لا يمكنه من المعاصي، وهذا في زماننا غير واقع، فيتعين الإفتاء بولاية ضمه لكل من يؤتمن عليه من أقاربه ويقدر على حفظه؛ فإن دفع المنكر واجب على كل من قدر عليه، لا سيما من يلحقه عاره، وذلك أيضا من أعظم صلة الرحم، والشرع أمر بصلتها، وبدفع المنكر ما أمكن……..الخ
تنبيه: حاصل ما ذكره في الولد إذا بلغ أنه إما أن يكون بكرا مسنة، أو ثيبا مأمونة، أو غلاما کذلك فله الخیار، وإما أن یکون بکرا شابة، أو یکون ثیبا أو غلاما غیر مأمونین فلا خیار لهم ، بل یضمهم الأب إلیه.
المبسوط للسرخسي (5/ 401):
قال: ويجبر الرجل على نفقة أولاده الصغار لقوله عز وجل: {فإن أرضعن لكم فآتوهن أجورهن} [الطلاق: 6]، والنفقة بعد الفطام بمنزلة مؤنة الرضاع قبل ذلك، ولأن الولد جزء من الأب، فتكون نفقته عليه كنفقته على نفسه.  
ثم في ظاهر الرواية لايشارك الأب في النفقة أحد، وقد روى عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أن النفقة على الأب والأم أثلاثا بحسب ميراثهما من الولد، فأما في ظاهر الرواية كما لا يشارك الأب في مؤنة الرضاع أحد، فكذلك في النفقة. وهذا إذا كان الأب موسرا، فإن كان معسرا والأم موسرة، أمرت بأن تنفق من مالها على الولد، ويكون ذلك دينا على الأب إذا أيسر. وكذلك الأب إذا كان معسرا وله أخ موسر؛ فإن الأخ، وهو عم الولد، يعطي نفقة الولد، ويكون ذلك دينا على الأب له إذا أيسر؛ لأن استحقاق النفقة على الأب، ولكن الإنفاق لا يحتمل التأخير، فيقام مال الغير مقام ماله في أداء مقدار الحاجة منه على أن يكون ذلك دينا عليه إذا أيسر.
 والذي قلنا في الصغار من الأولاد، كذلك في الكبار إذا كن إناثا؛ لأن النساء عاجزات عن الكسب، واستحقاق النفقة لعجز المنفق عليه عن كسبه. وإن كانوا ذكورا بالغين لم يجبر الأب على الانفاق عليهم لقدرتهم على الكسب، إلا من كان منهم زمنا أو أعمى أو مقعدا أو أشل اليدين لا ينتفع بهما أو مفلوجا أو معتوها، فحينئذ تجب النفقة على الوالد لعجز المنفق عليه عن الكسب.
 وهذا إذا لم يكن للولد مال، فإذا كان للولد مال فنفقته في ماله لأنه موسر غير محتاج، واستحقاق النفقة على الغنى للمعسر باعتبار الحاجة؛ إذ ليس أحد الموسرين بإيجاب نفقته على صاحبه بأولى من الآخر، بخلاف نفقة الزوجة؛ فإن استحقاق ذلك باعتبار العقد لتفريغها نفسها له، فتستحق موسرة كانت أو معسرة، فأما الاستحقاق هنا باعتبار الحاجة، فلا يثبت عند عدم الحاجة.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  11/جمادی الاولیٰ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب